Dawn News Television

شائع 07 اکتوبر 2017 04:44pm

سرکاری اسکولوں میں اب بھی سانس باقی ہے

شاعرِ مشرق بہت پہلے فرما گئے کہ 'ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی’، یقیناً علامہ اقبال کے یہ الفاظ ارضِ پاک کے روشن مستقبل کے معماروں کے بارے میں ایک پیش گوئی سے کم نہیں۔

کراچی سمیت سندھ بھر کے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالتِ زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، محتاط اندازے کے مطابق سندھ میں 6 ہزار سے زائد اسکول ایسے جو بند پڑے ہیں یا پھر مختلف با اثر افراد نے اِن اسکولوں کو اصطبل یا گودام بنایا ہوا ہے، جبکہ ہزاروں اسکولوں میں بنیادی سہولیات ناپید ہیں۔ شدید گرمی میں اساتذہ اور طلباء پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات کے بغیر ہی درس و تدریس جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔

محکمہءِ تعلیم کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق 300 سے زائد اسکولوں کی بجلی واجبات کی عدم ادائیگی پر کاٹ دی گئی ہے جبکہ 1300 سے زائد اسکولوں کو گزشتہ مہینے کے الیکٹرک نے حتمی نوٹس جاری کیا تھا، جس پر تاحال محکمہءِ تعلیم کے حکام نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ عنقریب مزید 1300 اسکولوں کی بجلی بھی منقطع ہوجائے گی۔

پڑھیے: سندھ کی تعلیم کا نوحہ

عشروں سے جاری اِسی صورتحال نے سرکاری اداروں کا مورال اتنا گرا دیا ہے کہ یہاں پڑھنے والوں کو اب تمسخر کا نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔ ہر سال میٹرک و انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں سرکاری اسکول کے نتائج انتہائی مایوس کن آتے ہیں۔ اِس زبوں حالی اور مایوسی کی فضاء میں کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن 9 نمبر میں واقع ابراہیم علی بھائی گورنمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول کی طالبات نے شاعرِ مشرق کے مذکورہ شعر میں موجود پیش گوئی پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔

رواں سال میٹرک کے نتائج میں اسکول کی طالبات نے 100 فیصد کامیابی حاصل کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اسکول کی ظاہری حالت یہ ہے کہ گراؤنڈ موجود ہے لیکن اُس میں سبزہ اور درخت نہیں ہیں، ہوا چلے تو دھول اڑتی ہے۔ کمپیوٹر لیب اور لائبریری کی سہولت نہیں۔ اسکول میں طالبات کی تعداد ایک ہزار جبکہ اساتذہ کی تعداد فقط 14 ہے، حالانکہ قواعد کے مطابق ایک ہزار بچیوں کے لیے 34 اساتذہ درکار ہوتے ہیں، لیکن اِس کمی کے باوجود رواں سال مجموعی طور پر 145 طالبات نے میٹرک کے امتحانات میں حصہ لیا، جن میں 19 طالبات نے ’اے ون‘، 82 طالبات نے ’اے‘ اور 34 طالبات نے ’بی گریڈ‘ حاصل کیا جبکہ بقیہ ’10 طالبات سی‘ گریڈ کے ساتھ پاس ہوئیں۔

ابراہم علی بھائی گرلز سیکنڈری اسکول—تصویر نور الہدیٰ شاہین

ابراہیم علی بھائی گرلز سیکنڈری اسکول کی ہونہار طالبات—تصویر نور الہدیٰ شاہین

ابراہیم علی بھائی گرلز سیکنڈری اسکول کی پرنسپل نوشاد بیگم—تصویر نور الہدیٰ شاہین

اس قدر شاندار نتائج کے پیچھے کیا راز ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے اسکول کا دورہ کیا۔

اورنگی 9 نمبر پہنچے تو دھول اُڑاتی کچی سڑک کے کنارے ایک بوسیدہ عمارت نظر آئی، ارد گرد کچرے کے ڈھیر لگے تھے۔ پرانے زمانے کے بورڈ پر اسکول کا نام پڑھنے میں بھی دشواری پیش آرہی تھی۔ اسکول کا ٹوٹا پھوٹا گیٹ کھلا نظر آیا جس پر سیکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ ہم سیدھا پرنسپل آفس میں چلے گئے۔

پرنسپل آفس میں اُدھیڑ عمر پرنسل نوشاد بیگم اپنی نشست پر بیٹھی طالبات کی رہنمائی میں مصروف تھیں۔ رسمی علیک سلیک کے بعد ہمارے استفسار پر اسکول کی پرنسپل نوشاد بیگم نے بتایا کہ "اِس کامیابی کے پیچھے تین اصول ہیں، ایمانداری، دیانتداری اور اپنے پیشے کے ساتھ وفاداری۔ اِن تین اصولوں پر عمل کرکے ہم نے مایوسی کے اندھیروں میں اُمید کا دیا روشن کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2001 میں جب میں نے چارج سنبھالا تو اسکول کی حالت دوسرے سرکاری تعلیمی اداروں سے مختلف نہیں تھی تاہم ہم نے کچھ کرنے کی ٹھان لی اور اسٹاف کو بھی اِس بات پر قائل کرلیا کہ حکومت ہمارے لیے کچھ نہیں کرے گی۔ جو بھی کرنا ہے ہم اپنے بل پوتے پر کریں گے۔"

پڑھیے: دادی لیلاوتی: سندھ میں تعلیم کا دیا روشن کرنے والی شخصیت

پرنسپل صاحبہ نے ہمیں مزید بتایا کہ، "ہم نے دوپہر کی شفٹ میں بھی کلاسز شروع کیں اور اِس وقت 4 اساتذہ ایسی ہیں جو بلا معاوضہ دوپہر میں بھی بچیوں کو پڑھاتی ہیں۔ مسائل کے حل کے لیے بار بار محکمہءِ تعلیم کے حکام کی توجہ دلائی لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا، لہٰذا ہم نے فلاحی اداروں سے رابطے کئے اور انہوں نے ہمارے لیے فرنیچر و دیگر ضروری اشیاء فراہم کیں۔"

ابراہیم علی بھائی گرلز سیکنڈری اسکول نہ صرف نصابی سرگرمیوں میں شاندار نتائج کا حامل ہے بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اسکول کے اندر اسپورٹس کمپلیکس ہے جہاں کراچی بھر کے گرلز اسکولوں کے مابین مختلف کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس یہاں کی طالبہ اقراء بیگ نے پینٹنگ کے مقابلوں میں سندھ بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی جبکہ دوسری طالبہ عروج عابد نے کراچی کی سطح پر ہونے والے کراٹے مقابلوں میں ٹاپ کیا۔

ابراہیم علی بھائی گرلز سیکنڈری اسکول کا مرکزی دروازہ —تصویر نور الہدیٰ شاہین

ابراہیم علی بھائی گرلز سیکنڈری اسکول کے باہر صفائی کے ناقص انتظام کی ایک جھلک—تصویر نور الہدیٰ شاہین

ہماری موجودگی میں ہی باہر سے چند افراد اپنے ساتھ 50 پودے لے کر آئے اور اسکول کی طالبات و اساتذہ کے ساتھ ملکر گراونڈ میں لگائے۔ اِس کے علاوہ، تقریری مقابلے، مضمون نویسی، کوئز کمپیٹیشن، نعت خوانی و دیگر ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی طالبات بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔

پڑھیے: گرتا معیارِ تعلیم: کیا کسی کو فکر ہے؟

رواں سال میٹرک امتحانات میں 85 فیصد نمبر لینے والی یتیم طالبہ کائنات فیاض نے بتایا کہ اِس کامیابی کے پیچھے میڈم نوشاد و دیگر اساتذہ کی انتھک محنت شامل ہے جو نہ صرف اسکول کے اوقات میں، بلکہ دوپہر میں بھی بچیوں کو بلا معاوضہ پڑھاتی ہیں۔ کائنات نے سر سید گرلز کالج میں سالِ اول میں داخلہ لیا ہے اور انہیں تعلیمی اخراجات اٹھانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسری طالبہ رضیہ بی بی نے 81 فیصد نمبرز کے ساتھ اسکول میں دوسری پوزیشن حاصل کی اور آج کل عبداللہ کالج میں زیرِ تعلیم ہیں۔ رضیہ کا کہنا ہے کہ حکومت معمولی حوصلہ افزائی کرے تو سرکاری اسکول مہنگے پرائیویٹ اسکولوں سے بھی اچھے نتائج دے سکتے ہیں۔

ابراہیم علی بھائی گرلز سیکنڈری اسکول کارکردگی کے حوالے سے یقیناً سرکاری تعلیمی اداروں کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے، کہ عزائم پختہ ہوں تو وسائل کی کمی بھی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اہل علاقہ ایسے اسکولوں اور اُن کے عملے کی حوصلہ افزائی کریں، اُن کے چھوٹے چھوٹے مسائل مقامی سطح پر حل کرنے کی کوشش کی جائے، منتخب نمائندے اور حکومت اِس ماڈل کو سامنے رکھتے ہوئے دیگر سرکاری تعلیمی اداروں پر توجہ دیں، اُنہیں سہولیات فراہم کریں تاکہ اِن کا معیار تعلیم بہتر ہوسکے اور جو لوگ اپنے بچوں کو بھاری فیسوں کے عوض نجی اسکولوں میں تعلیم نہیں دلوا سکتے وہ بھی سرکاری اسکولوں کی جانب قدم بڑھانے کی ہمت کر سکیں۔

Read Comments