فقیرانہ کَکھ: جہاں انسان اور چرند پرند ایک سے مہمان
فطرت سے انسان کا رشتہ صدیوں پر محیط ہے۔ پتوں سے اپنا جسم ڈھانپنے، غاروں کو گھر بنا کر رہنے والا انسان اور دریاؤں کو مقدس ماننے والا انسان ترقی کرتا کرتا اِن فطری رنگوں بلکہ زندگی کے حقیقی رنگوں سے دور ہوتا چلا گیا۔
مگر اِسی ترقی کی دوڑ نے انسان کو کافی تنہا اور حقیقی سکون سے عاری بھی کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بناوٹی آسائشی چیزوں میں گھرے رہنے کے باوجود بھی ہمیشہ ذہنی و جسمانی تسکین میں تلاش رہتا ہے جو صرف فطرت اور فطری رنگوں میں پیوستہ ہوتی ہے۔
18ویں صدی کے فرینچ فلاسفر، روسو نے ایک بار پھر فطرت کی جانب لوٹنے کی بات کی تھی لیکن آج بھی اِس جہان میں چند ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کے لیے زر سے زیادہ دیگر فطرت سے نزدیکی اہمیت رکھتی ہے اور اپنے وجود سے زیادہ سے زیادہ انسان ذات کا بھلا کرنا چاہتے ہیں، ساتھ ہی اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ دُکھی لوگوں کے لیے خوشی کا باعث بنا جائے۔
سندھ، جہاں آج بھی روایتی وڈیرے لوگوں کو غلام بنائے ہوئے ہیں، جن کا نام سنتے ہی لوگوں کے ماتھے پر شکن پڑنے لگتے ہیں وہاں چند کردار ایسے بھی موجود ہیں، جو اپنی حلیم طبیعت اور اپنے کردار سے لوگوں کے دلوں کو جیت لیتے ہیں۔
ضلع میرپورخاص کے شہر جھڈو سے مشرق کی جانب 20 منٹ کی مسافت پر ایک ایسا بسیرا قائم ہے جہاں ہر طرف فطری حسن کی جھلک نظر آئے گی۔ یہ اوطاق (بیٹھک) فقیر غلام حیدر لغاری کے گاؤں میں قائم ہے، جس کا نام ’فقیرانہ ککھ‘ (فقیروں کا آستھان) ہے۔ گگھ موری سے اکال نہر کی جانب جانے والا راستہ اِسی بیٹھک کے آنگن پر آکر پہنچتا ہے، جہاں نہ صرف انسان بلکہ چرند پرند ہر آنے والے مہمان کا استقبال کرتے ہیں۔