Dawn News Television

اپ ڈیٹ 28 اکتوبر 2017 12:21pm

کیا آپ کو اپنا نام ٹھیک سے لکھنا اور پکارنا آتا ہے؟

بازار کے بازار سجے ہیں اشیاء سے۔ گلی مُحلے کی دکانیں ہوں یا کوئی شاپنگ پلازہ، جائیے اور اپنی خواہشات اور ضروریات کے مطابق خریداری کیجیے۔ اِن بازاروں میں زیرے سے لے کر ہیرے تک سبھی کچھ موجود ہے، لیکن کسی معمولی یا بیش قیمت خواہش کی تکمیل اُسی صورت ممکن ہے جب آپ اپنی جیب وزن گھٹانا پسند کریں۔

ابتدائیہ تو یہی ظاہر کررہا ہے کہ میں خرید و فروخت اور بھاؤ تاؤ کے بارے میں آپ کو کچھ سمجھاؤں گا، مگر ایسا نہیں ہے۔ میرا موضوع کسی انسان یا جگہ کی شناخت اور پہچان کے لیے رکھے جانے والے نام اور اُن کا رومن (انگریزی حروفِ تہجی) میں لکھا جانا ہے۔ اِس تحریر کا مقصد زبان و بیان اور املا انشاء کی درستی نہیں بس ایک عام غلطی کی طرف آپ کی توجہ چاہتا ہوں۔

دوستو! آج کل بچوں کے نت نئے بلکہ 'جدید الجدید' نام رکھے جارہے ہیں۔ اِن ناموں میں بہت سے نام خوبصورت اور بامعنی بھی ہیں، مگر اِنہی میں اکثر بے معنی اور مفہوم سے عاری نام بھی ہیں۔ اِس پر سِتم یہ کہ والدین کو بھی اِن ناموں کا اِملا اور تلفظ ادا کرنا نہیں آتا۔

جانیے: املاء کی غلطیاں کیسے فراڈ آسان بنا سکتی ہیں

یہ معاملہ اُس وقت مزید مضحکہ خیز ہوجاتا ہے جب کوئی نام رومن میں تحریر کیا جاتا ہے۔ پِچھلے دنوں ایک نوجوان ٹریولنگ ایجنٹ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنا وزیٹنگ کارڈ تھما دیا۔ اُس پر انگریزی حروفِ تہجی میں اُن کا نام یوں درج تھا؛ Abdul Rehman۔ دورانِ گفتگو میں اُسے رحمان بھائی کہہ کر مخاطب کرتا رہا۔ اب کارڈ ہاتھ میں آیا تو کچھ سوچ کر اُن سے پورا نام دریافت کرلیا۔ معلوم ہوا کہ وہ خود کو عبدالرّحمٰن نہیں بلکہ عبدل رحمٰن بتاتے ہیں اور رومن میں یہی لکھتے بھی ہیں۔ جبکہ اِسے انگریزی حروفِ تہجی میں Abdur Rahman لکھا جانا چاہیے۔ اِسی طرح Abdul Razzaq کا معاملہ بھی ہے جسے اردو میں تو عبدالرّزاق لکھا جاتا ہے، لیکن اکثریت اِسے عبدل رزاق پکارتی اور پڑھتی ہے جبکہ درست Abdul Razaq ہے۔

افسوس ہوا کہ ہمارے ہاں لوگ اپنے نام کے معنیٰ جاننا تو الگ بات، اُس کی درست ادائیگی بھی نہیں کرسکتے۔ انگریزی حروفِ تہجی کے ساتھ کسی دُکان یا اشتہاری بورڈ پر نام لکھنے میں یہ غلطی عام ہے جبکہ سرکاری کاغذات میں بھی اِسی طرح غلط لکھا جارہا ہے۔

ہمارے ہاں ناموں کا جمعہ بازار لگ گیا ہے جس سے زبان و بیان کی کئی خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔ ایک صاحب کے بیٹے کا نام ’عالیان‘ تھا۔ میں نے پوچھا؛ اردو میں کیسے لکھتے ہیں؟ انہوں نے ’آلیان‘ لکھ کر دکھا دیا۔ معنی پوچھے تو بولے؛ یار بیگم کو پتہ ہے۔ اِسی طرح ایک دوست نے اپنی بیٹی کا نام ’ناظورہ‘ رکھا تھا۔ میں نے نیک نیتی اور اصلاح کی غرض سے اُن کا امتحان لیا اور اُن کے بارے میں میرا اندازہ درست نکلا۔ وہ اِسے ’نازورہ‘ لکھ رہے تھے۔ ذرا سمجھایا تو وہ میری بات مان گئے، لیکن اپنے املا اور ہجّا سے متعلق اُن کی منطق عجیب تھی، وہ سمجھتے تھے کہ یہ ناز، نازیہ جیسے کسی نام سے ایک قدم آگے کا نام ہے اور اِسی لیے نازورہ لکھنا چاہیے۔

پڑھیے: اردو زبان کے بارے میں چند غلط تصورات

اِسی طرح بعض ناموں میں 'ز' اور 'ذ' جیسے حروف بھی مسئلہ ہیں۔ ’عزیر‘ اگر ’عذیر‘ ہوجائے اور ’عذرا‘ کو ’عزرا‘ لکھ دیا جائے تو اچھا خاصا پڑھا لکھا بھی اِسے غلط نہیں کہتا۔ اِسی طرح ’بسمہ‘ کو ’بسمیٰ‘ اور ’ہاجرہ‘ کو ’ھاجرہ‘ لکھنے والوں کا قلم ذرا نہیں لرزتا۔ ایک اور نام جو بہت عام ہوا وہ ’ایان‘، ’ایّان‘ اور بعض لوگوں نے اسے ’آیان‘ تک لکھا، مگر تلاش بسیار کے باوجود یہ عربی میں اسم کے طور پر نہیں ملا۔ ہاں، ’عیان‘ ایک اسم ہوسکتا ہے جس کے معنی اعراب کے فرق کے ساتھ سامنے نظر آنے والی شئے، مشاہد اور گواہ کے ہوسکتے ہیں۔

ہماری اردو میں بھی خیر سے ہر زبان کا لفظ شامل ہے جو اِس کا حُسن بڑھاتے ہیں اور اُسے وسعت اور گہرائی بھی عطا کرتے ہیں۔ اِسی زبان میں عربی کا قاعدہ بھی کام آتا ہے۔ عبدالرّحمٰن اور عبدالرّزاق میں 'ال' دراصل عربی کا ایک قاعدہ ہے۔ اِسے لام تعریف کہتے ہیں۔ اگر ہم کسی کو لفظ الشّمس کی ادائیگی کے لیے کہیں تو اکثریت اِسے ال شمس پڑھے گی جبکہ درست اش-شمس ہے۔ عربی قاعدے پر عربی حروف کو دو خانوں میں بانٹا گیا ہے۔ یہ تقسیم شمسی اور قمری کہلاتی ہے اور یہیں ہم غلط ہوجاتے ہیں۔

حروف شمسی سے شروع الفاظ 'ال' لگایا جائے تو لام کی آواز نہیں نکالی جاتی۔ جیسے 'ال-شمس' کو 'اش-شمس' پڑھا جائے گا۔ اِس میں لام تعریف کے بعد کا حرف متشدد ہوتا ہے اور ادا کیا جاتا ہے۔ جبکہ حروفِ قمری میں جب عربی کے الفاظ کے شروع میں 'ال' لگایا جائے تو لام کی آواز ادا کی جاتی ہے۔ جیسے 'ال-قمر' کو القمر پڑھا جائے گا۔ یہ تو خاصی گاڑھی بحث اور دقیق باتیں ہوگئیں۔

پڑھیے: 6 سادہ طریقوں سے اردو کے فروغ میں حصہ لیں

بازار اور دُکانوں کی بات ہوئی ہے تو آپ کی معلومات میں اضافہ کرتے چلیں کہ آپ میں سے بہت سوں نے عام رسائل اور اخباروں کا مطالعہ کرتے ہوئے Shop کے لیے لفظ 'دوکان' پڑھا ہوگا۔ یہ دراصل 'دکان' ہے جسے شاید سبھی نے غلط لکھنے کی ٹھان لی ہے۔ عربی میں بھی خرید و فروخت کی جگہ کے لیے دکّان (کاف پر تشدید) کہا جاتا ہے اور اِس کی جمع دکّاکین ہے۔ اردو میں یہ لفظ دکان اور دکانیں ہوگیا جس کے ساتھ دال اور کاف کے درمیان واؤ لگا کر ہم بڑی زیادتی کررہے ہیں۔ مختصر یہ کہ ناموں کے سیلاب میں بہنے کے بجائے تحقیق اور کسی اہلِ علم سے رائے اور مشورہ کرلیا جائے تو بہتر ہے۔

Read Comments