آموں پر بور آئے اور کوئل کی کوک اور پپیہے کی ہوک نہ ہو، صبح دم چڑیوں کی چہچہاہٹ اور کبوتر کی غٹرغوں نہ ہو، کوّوں کی کائیں کائیں، مینا کی چہچہاہٹ اور بلبل کے سریلے گیت بھی نہ ہوں تو سوچیے زندگی کتنی سونی اور ادھوری لگے گی۔ انہی پرندوں کے ذکر سے تو ہماری ثقافت بھی رچی بسی ہے۔
روایتی طور پر ہمارے ہاں الو بے وقوفی اور حماقت کی علامت تو کوا چالاک، طوطا بے وفا تو کبوتر معصوم اورسادہ لوح ٹھہرتا ہے۔ خوبصورتی کے لیے چشمِ آہو تو کہیں رقص طاؤس کا تذکرہ ہوتا ہے۔ کہیں شاعری میں طوطا مینا کی باتیں ہوتی ہیں تو کہیں شاہین اور عقاب بلندی اور بڑائی کا استعارہ ٹھہرتے ہیں۔
اور جب ذکر کونج کا ہو تو گویا تنہائی اور بچھڑنے کا منظرنامہ چاروں طرف چھا جاتا ہے، کیوں کہ ہماری زبان میں کونج استعارہ ہے بچھڑنے کا۔ ڈار سے بچھڑی کونج ایسے ہی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے جب تنہائی اور اکیلے پن کی شدت کو ظاہر کرنا ہو۔ لیکن کیا ہم جانتے ہیں کہ موسمِ سرما میں ہزاروں میل کا سفر طے کرکے ہماری آب گاہوں پر اترنے والی کونجوں کی یہ ڈاریں اب بمشکل ہی واپس جاپاتی ہیں؟ یہ معصوم پرندہ ہماری سفاکی اور بے رحمی کے ہاتھوں فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔
بلوچستان کا ساحل میانی ہور جو رامسر سائٹ (رامسر معاہدے کے تحت بین الاقوامی اہمیت کی آب گاہ) بھی ہے، یہاں کونجوں کی بہت بڑی تعداد آتی ہے جسے چوری چھپے راتوں رات شکار کرلیا جاتا ہے۔ لوگ اُنہیں زندہ پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اِس پکڑنے اور لانے لے جانے میں ہر سال 400 سے 500 کونجیں موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔ کونجوں کو زیادہ تر وزیرستان کے لوگ پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُن علاقوں میں روایتی طور پر کونجوں کو پالنا بہادری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ لوگوں کے اصرار پر ہی خیبر پختونخواہ کی حکومت نے کونجوں کے شکار کا لائسنس بھی جاری کیا ہے۔