سندھ برطانیہ کے قبضے میں کیسے گیا؟
ڈاکٹر ممتاز حسین پٹھان اپنی کتاب ٹالپرز اِن سندھ (1843ء-1783ء) میں تفصیلاً بیان کرتے ہیں کہ کس طرح میر فتح علی خان کی منصوبہ بندی سے خطے کے کلہوڑا حکمرانوں کی حکومت کا خاتمہ اور تالپور حکومت کا قیام ہوا۔
وہ تالپور حکومت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح صرف 60 سال بعد برطانوی منصوبہ بندیوں نے اس حکومت کو برباد کردیا تھا۔ ڈاکٹر پٹھان کی کتاب سندھ میں برطانوی راج اور جنرل چارلس نیپیئر جیسے حملہ آوروں کے دھوکے اور فریب پر مبنی میکیاولیت حربوں سے پردہ اٹھاتی ہے، جن کا کہنا تھا کہ ’ہمیں سندھ پر قبضہ کرنے کا حق نہیں ہے، مگر پھر بھی ہم کریں گے اور یہ ایک انتہائی شرمناک مگر فائدہ مند اور کارآمد حرکت ہوگی۔‘
کتاب تالپوروں کے ابتدائی حالات اور پھر ان کی حکومت کے قیام سے شروع ہوتی ہے۔ یہ نادر شاہ کے دہلی جاتے ہوئے سندھ میں آمد پر بھی بات کرتی ہے، جسے خطے کی بگڑتی ہوئی سیاسی صورتحال اور کلہوڑا حکومت کی تنزلی میں کافی دلچسپی تھی۔ یہی وجوہات آگے چل کر تالپوروں کے عروج کا سبب بنیں۔
ڈاکٹر پٹھان پھر ابتدائی حکومت پر بحث کرتے ہیں جسے پہلی چویاری یا 4 دوستوں کی حکومت بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں حکومت کے بانی میر فتح اور ان کے بھائی میر غلام، میر کرم اور میر مراد شامل ہیں۔ 1789ء میں حیدرآباد کو دارالحکومت قرار دینے کے بعد بھائیوں نے اپنی حکومت کو موجودہ سندھ، کَچھ، بلوچستان، سبزل کوٹ اور بھنگبرا تک وسعت دے دی تھی جو کہ ایک لاکھ مربع کلومیٹر کی اراضی اور تقریباً 40 لاکھ کی آبادی پر مشتمل علاقہ تھا۔ تالپوروں نے اتنے بڑے علاقے کا انتظام سنبھالنے کے لیے جاگیریں عطا کیں۔ بعد میں انہوں نے اب کراچی کے نام سے جانے جانے والے علاقے کو بھی فتح کرلیا۔
پڑھیے: جنگِ حیدرآباد: انگریزوں کا سندھ میں حتمی معرکہ
تالپور برادران انصاف پسند تھے اور اپنوں سے، سرداروں اور عام لوگوں سب سے فراخدلی سے پیش آتے، مگر سندھ پر نظریں جمائی ایسٹ انڈیا کمپنی ان کے اقتدار کے خاتمے کی ٹھان چکی تھی۔ کمپنی نے ایران سے تعلق رکھنے والے آغا ابو الحسن اور انگلستان کے نیتھن کرووے کو ٹھٹہ اور کراچی میں فیکٹریاں قائم کرنے کے لیے بھیجا جہاں سے وہ حساس معلومات اکھٹی کرتے، دیگر سازشیوں کو اپنے ساتھ ملاتے اور یوں تالپور حکومت کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں مصروف رہتے۔
اس دوران افغانستان کے شاہ شجاع نے 1832ء میں سندھ پر حملہ کیا اور سید احمد بریلوی پنجاب کے حکمران رنجیت سنگھ کے خلاف جہاد کی حمایت کی درخواست لیے سندھ آئے، مگر میر مراد نے سید احمد بریلوی کو غلطی سے ایک برطانوی ایجنٹ سمجھا اور ان سے کافی سردمہری سے پیش آئے۔ مگر بریلوی اور ان کے مجاہدین کی موجودگی نے سندھ میں مستقبل کی حُر تحریک کو متاثر کیا۔ پھر برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ ہینری پوٹنجر دریائے سندھ کے دہانے کا سروے کرنے کے لیے آئے تھے تاکہ مستقبل میں اسے فتح کیا جاسکے۔ اسی دوران برطانوی حکام نے میر مراد پر 1832ء میں ایک دو طرفہ معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔