نقطہ نظر

کڑوا سچ

مرحوم خالد حسن نے اکبر ایس احمد کو 'اینتھرو پینتھرو' کے لقب سے نوازا تھا، یہ نام ان پہ جیسے چپک ہی گیا

کچھ لوگوں کی عرفیت ان کی شخصیت پرچسپاں ہو جاتی ہے بالکل جیسے مرحوم خالد حسن نے جو اپنے وقت کے بہترین طنزیہ کالم نگار تھے اکبر ایس احمد کو "اینتھروپینتھرو" کے لقب سے نوازا تھا- یہ نام ان پہ جیسے چپک ہی گیا-

ان لوگوں کیلئے جن کو پس منظرکا نہیں پتہ ہے، اکبر احمد ایک سابق سرکاری افسر تھے، جنہوں نے ایک سڑک کو اپنا نام دیا تھا- یہ کافی عرصے پہلے کی بات ہے جب وہ بلوچستان میں ڈسٹرکٹ آفیسر کے طور پرتعینات تھے-

اینتھروپولوجی (علم البشریت) ان کا شعبہ تھا (ان کی عرفیت کی بنا) انہوں نے پختون قبائل، ان کے رسم و رواج اور تاریخ کے بارے میں کافی کچھ لکھا ہے- سنہ 1999 میں کیمبرج یونیورسٹی میں وہ اقبال فیلو تھے، جب مشرف نے انکو برطانیہ میں ہائی کمشنرکے عہدے پر فائز کیا-

بہرصورت، چند ہی مہینوں میں ایک اسکینڈل میں ملوث ہو کر وہ اس عہدے سے ہٹا دئے گئے- کئی سال تک وہ جناح صاحب کے بارے میں ایک فلم پروجیکٹ سے وابستہ رہے اور بیرون ملک مقیم کافی پاکستانیوں سے فلم کی تکمیل کے سلسلے میں مدد چاہی- یہ سب کچھ ڈیوڈ اٹنبرو کی فلم گاندھی جس نے سنہ 1980میں عالمی شہرت حاصل کی تھی، کے جواب میں تھا-

بہرحال انکو انکی ثابت قدمی کا صلہ مل گیا اور انکی فلم مکمل ہوگئی- لیکن افسوس یہ ہے کہ یہیں سے چیزیں پٹڑی سے اترنے لگیں: جمیل دہلوی فلم ڈائریکٹر نے ان پر اپنی معاہدہ کی فیس کی وصولی کا مقدمہ دائر کر دیا- بلکہ انہوں نے ان پر اسکرپٹ کا کریڈٹ بھی اپنے اوپر لینے کا الزام لگایا جبکہ اصل اسکرپٹ رائیٹر فرخ ڈھونڈی، ایک ہندوستانی لیکھک تھے (اور پچھلے کراچی لٹریری فیسٹیول کے موقع پر ڈھونڈی نے، مجھ سے اس بات کی تصدیق بھی کی)

گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق، 51،500 پاؤنڈ کی رقم، اکبر احمد کو ادا کی گئی تھی اور اس کے علاوہ 35،000 پاؤنڈ کی رقم، انکے بیٹے اور داماد دونوں کوالگ الگ دی گئی- احمد نے کسی بھی قسم کی بدعنوانی سے انکار کیا اور کہا کہ اس پروجیکٹ کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا، ہاں جناح صاحب کی طرح، پیشہ ورانہ فیس، ان کا قانونی حق تھا- ہاں ان کے رشتہ داروں نے اپنی محنت کا معاوضہ لیا تھا- جبکہ جمیل دہلوی نے کہا کہ ان کے کسی رشتہ دار کا، فلم کی تکمیل میں کسی طرح کا کوئی حصہ نہیں تھا-

جب اس کہانی کا پتہ چلا تو مشرف کی حکومت نے اپنی حمایت اور دس لاکھ پاونڈ کی مدد واپس لے لی- اگرچہ کہ فلم مکمل ہوچکی تھی لیکن اس کو کوئی ڈسٹری بیوٹر نہیں مل رہا تھا-

ادھرپاکستان میں ایک گرماگرم تنازعہ، جناح صاحب کے رول کیلئےکرسٹوفر لی جیسے اداکار کے انتخاب اورایک غیر حقیقی کہانی کے اسکرپٹ کو لے کر چھڑ گئی تھی- نتیجتاً یہ فلم، کوئی نشانی چھوڑے بغیر ڈوب گئی-

تو آخر میں اس گڑے مردے کو کیوں اکھاڑ رہا ہوں؟

اصل بات یہ ہے کہ اکبر احمد اور اس تیرہ سالہ پرانے اسکینڈل کا مجھے کبھی بھولے سے خیال بھی نہیں آیا تھا جبتک کہ مجھے انکی کتاب "دی تھسل اینڈ دی ڈرون" کی ہاؤس آف لارڈز میں افتتاحی تقریب میں خطاب کرنے کیلئے مدعو نہیں کیا گیا- اس تقریب کے منتظم، ایک ایسے عزیز دوست تھے جن کو میں منع نہیں کر سکتا تھا-

میں نے یہ کتاب ابھی نہیں پڑھی ہے لیکن مصنف نے کتاب کے کافی طویل تعارف میں جس خیال کا اظہار کیا ہے کہ وہ یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان، صومالیہ اور یمن کے قبائلی کلچر کو امریکی ڈرون حملوں کے ذریعہ تباہ کیا جا رہا ہے- احمد کے خیال میں مرکز کا یہ رویہ مضافاتی علاقوں کو نظرانداز کرنے کی قدیم روایات کا آئینہ دار ہے-

ہم لوگوں سے کہا گیا تھا کہ اپنے تبصروں کو مختصر ہی رکھیں- اسلئے میں نے جلدی جلدی دو نکتے اٹھائے- پہلی بات یہ کہ اگر ہم کسی پالیسی سے اختلاف کرتے ہیں توہمارے پاس اس کا متبادل موجود ہونا چاہئے- پاکستان کے حالات میں، ہمارے پاس ایک بہت بڑا علاقہ ہے جہاں ہماری فوج وہاں موجود دہشت گردوں کا صفایا کرنے کیلئے اندرداخل نہیں ہو سکتی ہے یا ہونا نہیں چاہتی- یہ جہادی، ان پناہ گاہوں کو، افغانستان اور پاکستان کے اندر حملے کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں- وہ چالیس ہزار پاکستانیوں کو قتل کر چکے ہیں- کیا ہم ان کو اس پرتشدد عمل کی اجازت، بغیر کسی جوابی کارروائی کے، دیتے رہیں؟

دوسری بات جو میں نے کہی کہ قبائلی معاشرے کا رومانی تصور ایک بہت آسان بات ہے لیکن ہم کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہی وہ ہمارے قبائلی بزرگ ہیں جنہوں نے عورتوں کوگھروں میں قید کر رکھا ہے- ان کو پڑھنے لکھنے اورکام کرنے کی اجازت نہیں ہے اور ہمیشہ انتخابات کے موقع پر جرگوں کے ذریعہ عورتوں کو ووٹ دینے سے روکنے کا فتویٰ جاری کرتے ہیں-

یہ دونوں نکات جو میں نے اٹھائے، کتاب کے مرکزی خیال کے بالکل برعکس تھے، اسلئے کتاب کے مصنف نے اپنے کُلّیے کا بہت تفصیل سے دفاع کیا-

میں اس گفتگو کی تفصیل میں نہیں جاؤنگا- سوائے اس کے کہ میزبان لارڈ شیخ اور ایک پینلسٹ، وجے مہتہ، اپنے تیار شدہ متن کے مطابق، اس کتاب کی تعریف میں رطب الّلسان تھے اس حد تک کہ میں نے آج تک اپنی کتابوں سمیت جتنی کتابوں کی افتتاحی تقریبوں میں شرکت کی ہے، کبھی کہیں کسی مصنف کواتنی خوشامدانہ تعریفوں سے نوازتے ہوئے نہیں دیکھا ہے-

سوال و جواب کے موقع پرایک صاحب نے اتنی بہترین کتاب لکھنے پر تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے کہا کہ وہ ضرور یہ کتاب خریدیں گے- جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کا سوال کیا ہے تو انہوں نے کہا "میں مصنف سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان کی کتاب کی فروخت بڑھانے کیلئے ہم کیا کرسکتے ہیں؟"

سوال و جواب کے سیشن کے اختتام پر خوشامد پرستی کا اتنا مظاہرہ ہی کافی نہیں تھا- احمد نے دو نوجوان امریکنوں سے پوچھا جوغالباً، امریکہ سے ان کے ساتھ اسی مقصد سے آئے تھے، دونوں نے کہا کہ پروفیسرصاحب کا شاگرد ہونا، ان کیلئے بڑے اعزاز کی بات ہے- سامعین میں چند دوستوں نے کہا کہ خوشامد پسندی کا ایسا عوامی مظاہرہ اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آیا-

بس یہی ایک موقع تھا جب میں اکبر احمد سے ملا ہوں- جناح صاحب کی فلم کے پرانے اسکینڈل کے علاوہ، میرا خیال ہے کہ جس بات نے مجھے ان سے سب سے زیادہ برگشتہ کیا وہ انکی اپنے ہر ای مل (email) میں اپنے نام سے پہلے ایمبسیڈر لگانے کی عادت تھی- امریکہ میں تو ریٹائرڈ افسروں کو اپنے نام کے ساتھ ان کے عہدے کا ٹائٹل رعایتاً لگانے کی اجازت ہوتی ہے لیکن کیونکہ انہوں نے صرف چھ ماہ تک لندن میں ہمارے سفیرکے طورپرکام کیا تھا اس لئے یہ بات مناسب نہیں ہے-

میں نے اسی اخبارمیں اپنے ایک کالم میں اس وقت یہ لکھا تھا: "اس اسکینڈل کو جو بات سب سے زیادہ قابل مذمت بناتی ہے وہ یہ ہے کہ فلم کا موضوع، وہ شخص ہے جو ایک بے داغ کردار کا مالک تھا، جس پراس کے بدترین دشمنوں نے بھی کبھی مالی بدعنوانی کا الزام نہیں لگایا تھا- اس کا نام، کسی ایسے پروجیکٹ سے جُڑے، جو ایک تنازع کا مرکز بنے، یہ ایک قوم پر بدنما داغ کے مانند ہے-"


ترجمہ: علی مظفر جعفری

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس irfan.husain@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔