Dawn News Television

اپ ڈیٹ 20 جولائ 2018 11:46am

پاکستانی 'پی کے' آپ کے لیے کیا پیغام لایا ہے؟

لکھاری ڈان اخبار کی اسٹاف ممبر ہیں۔

کراچی پریس کلب جانے والوں اور پریس کلب کے ارد گرد گنجان آباد علاقوں کے رہائشی گزشتہ کچھ دنوں میں ایک شخص کو دیکھ کر حیران ہوئے ہیں جو بالکل فکشن کی دنیا کا ایک کردار لگتا ہے۔

اپنی مخصوص شناخت پیلا ہیلمٹ پہنا ہوا ’پی کے‘ فٹ پاتھ پر اپنے پرانے کیسٹ پلیئر کے ساتھ بیٹھا نظر آتا ہے اور آنے جانے والوں کو پیلے رنگ کے پمفلٹ تھماتا رہتا ہے، جیسا کہ حال ہی میں اس اخبار کے ایک فیچر میں بتایا گیا۔

پاکستان میں اس پی کے کا پیغام سادہ ہے: اس کے پمفلٹس پر لکھا ہوتا ہے 'گمشدہ' جس کے بعد 'پانی، بجلی، گیس' لکھا ہوتا ہے، ان تمام چیزوں کی حالیہ سالوں میں کافی قلت رہی ہے۔

اگلی سطر میں لکھا ہوتا ہے کہ ایوانِ اقتدار میں ایماندار لوگ بھی اپنی عدم موجودگی کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی قوم کے زخموں پر نمک ہے جس نے حال ہی میں 3 مرتبہ وزیرِ اعظم بننے والے اور 3 مرتبہ برطرف کیے جانے والے شخص کو آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے جرم میں قید کی سزا ہوتے دیکھی ہے۔

یہ کردار ہر اس شخص کے لیے مانوس ہوگا جسے جنوبی ایشیائی فلمی صنعت سے ذرا سا بھی لگاؤ ہے۔ پی کے 2014ء میں ریلیز ہونے والی عامر خان کی فلم تھی جس میں مرکزی کردار انسانی شکل و صورت کا ایک ایسا کردار ہوتا ہے جو زمین پر ریسرچ کے لیے آتا ہے، مگر اپنے خلائی جہاز کا ریموٹ کنٹرول کھو جانے کی وجہ سے یہاں پر بھٹک جاتا ہے۔

پڑھیے: ’او بی بی، سیدھی زبان میں بتائیں، مہر کہاں لگائیں گی‘؟

اپنے کھو چکے ریموٹ کی تلاش میں پی کے، جسے یہ نام اس کے ایسے تصورات اور مشاہدات کی وجہ سے دیا جاتا ہے جن کا اظہار شراب کے نشے میں دھت کوئی شخص کرتا ہے۔ انسانی تعلقات میں دراڑ ڈالنے والی تفریقات، مثلاً ذات، نسل اور مذہب وغیرہ کی دھجیاں اڑا دیتا ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ اسے صرف ایک 'رائٹ نمبر' چاہیے جسے ڈائل کرنے پر آسمانی قوتیں اس کی مدد کو آئیں گی۔ اس نمبر کی تلاش میں پی کے معاشرے میں مارا مارا پھرتا ہے اور پھر گہری تفریق کے شکار برِصغیر کے معاشرے کو آئینہ دکھانے میں کامیاب رہتا ہے۔

اس فلم کے کردار کی طرح پاکستان میں بھی پی کے ایسے ہی 'رائٹ نمبر' کی تلاش میں ہے جسے ڈائل کرنے پر طاقتیں پاکستان کو لاحق گوناگوں مسائل کو حل یا کم از کم ان پر توجہ دیں گی۔

کوئی بھی انتخابات ہلکے پھلکے پہلو کے بغیر نہیں ہوتے۔ آنے والے مقابلے کے ان تناؤ بھرے دنوں میں جہاں پر زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی کوشش بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی اہمیت بڑا عہدہ حاصل کرنے کی ہوتی ہے، لیکن ایسے ماحول میں مزاح، گہرا مذاق یا پھر نری مضحکہ خیزی بھی آپ کو سوچنے پر مجبور کرسکتی ہے۔

پاکستان میں بھی پی کے یہی کرتا ہے اور خشک مزاحیہ انداز میں پُرتجسس راہ گیروں سے کہتا ہے کہ ’انتخابات سے دو دن قبل میں سب کو صحیح جواب دوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ مجھے تب تک جواب مل چکا ہوگا۔‘

سیاسی وابستگیوں کی بات کریں تو وہ سبھی کو مسترد کردیتا ہے۔ ’میں کسی بھی پارٹی کا نمائندہ نہیں، مجھے صرف ایک پارٹی پسند ہے، برتھ ڈے پارٹی۔‘

یہ لاتعلقی کچھ حد تک ان آنے والے انتخابات کی پہچان بن چکی ہے جبکہ ابھی تک مقابلہ شروع بھی نہیں ہوا۔ 2008ء کے انتخابات فضا میں تبدیلی کے احساس کے درمیان ہوئے تھے جب عوامی جدوجہد کے نتیجے میں ایک فوجی ڈکٹیٹر کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا جبکہ دسمبر 2007ء میں بینظیر بھٹو کے قتل کے نتیجے میں پیدا ہونے والا غم و غصہ بھی اس میں شامل تھا۔

پڑھیے: پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن میں نظریاتی فرق ہے بھی یا نہیں؟

اگلے انتخابات دیگر وجوہات کی بناء پر پرجوش رہے۔ ایک منتخب حکومت نے پہلی بار اپنا 5 سالہ دورِ اقتدار مکمل کیا تھا۔ دوسری مرتبہ ایسی جمہوریت میں وقت پر انتخابات ہوئے تھے جو کمزور تو ہوئی تھی مگر پھر بھی اپنی جڑیں برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تھی۔ مستقبل ابھی بھی امکانات سے بھرپور تھا اور نوجوان، جن میں سے زیادہ تر پہلی مرتبہ ووٹ ڈال رہے تھے، اس تبدیلی کی چاہ میں بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے۔

اس دفعہ بھلے ہی ایسا لگتا ہے کہ تھکاوٹ کا سماں ہے، خاص طور پر ان دور کھڑے ووٹروں میں جو کسی بھی ایک جماعت یا امیدوار کے پُرجوش حامی نہیں ہیں، مگر پھر بھی ایسا سماں ہے جیسے کہ کسی سُپر مارکیٹ میں گاہک کسی راہداری میں کھڑے چیزیں خرید رہے ہوں۔

بلاول زیادہ متاثر کن ثابت نہیں ہوئے اور زرداری کی پیپلز پارٹی بالکل بھی ویسی نہیں ہے جسے پرانے کارکن پہچان پائیں گے۔ ایم کیو ایم ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہے اور الطاف حسین کی کشش ماند پڑ چکی ہے۔ پی ٹی آئی انہی الیکٹیبلز کے پیچھے بھاگ رہی ہے جن کا زور توڑنے کا اس نے کبھی وعدہ کیا تھا، اپنے لیڈر کے علاوہ جو خود طالبان خان کا لقب حاصل کرچکے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے وزیرِ اعظم نااہل ہوچکے ہیں، پارٹی سربراہ رہنے کے قابل بھی نہیں رہے اور عدالت سے سزا پاچکے ہیں۔ ایسی صورت میں سوال ہے کہ اگر ووٹ کریں ٹو کسے کریں؟

مگر شاید سب سے زیادہ نقصان دہ 'فرشتوں' اور 'خلائی مخلوق' کی جانب سے انتخابات پر اثرانداز ہونے کی سرگوشیاں، بیانیے کو کنٹرول کر رہی 'خفیہ طاقتوں' کی جانب اشارے اور ایک مکمل طور پر جانبدار سسٹم کا خوف جس میں ایک کارآمد جمہوریت کے تمام لوازمات موجود ہیں مگر بامعنی جوہر کم ہی ہے اور معاملات پریس سینسرشپ سے مزید خراب ہو رہے ہیں جو سامنے موجود ہوتے ہوئے بھی سب کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔

کہا نہیں جا سکتا کہ 25 جولائی کو ووٹر ٹرن آؤٹ کیا ہوگا مگر ووٹروں کی لاتعلقی کو تمام متعلقہ حلقوں کی جانب سے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔

یقیناً ہمیں کسی نظام سے مایوس نہیں ہونا چاہیے بھلے ہی وہ ابھی پھڑپھڑا رہا ہو۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 16 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔

Read Comments