افسانہ: چابی
سب کچھ اس کے منصوبے کے مطابق ہوا تھا سوائے ایک بات کے، شاید یہ بات اس کے ذہن میں کبھی بھی نہ آتی لیکن اس کی بیوی نے اس صبح اس کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی اور تب سے وہ بے حد پریشان تھا، اتنی پریشانی تو اسے کل رات اس وقت بھی نہیں ہوئی تھی جب وہ تجوری سے رقم نکال رہا تھا۔
اس نے بڑی احتیاط سے بغیر کوئی شور کیے رقم تجوری سے نکالی تھی۔ وہ بے حد خوش تھا کہ 5 سال سے وہ کچھ ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھا اور کل رات اسے یہ موقع میسر آگیا تھا جب اس کا کنجوس مالک تجوری کی چابی اپنے کوٹ میں بھول گیا تھا، جو کمرے کے ایک کونے میں ٹنگا ہوا تھا۔
وہ روز مالک کے کوٹ کی تلاشی لیتا اور کل رات پہلی بار اسے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس نے گھر آکر رقم کی کئی گڈیاں بیوی کے سامنے ڈھیر کردیں، اس کی بیوی پہلے تو اتنی رقم دیکھ کر گھبرا گئی پھر فوراً اُس سے پوچھا،
’کسی نے تمہیں چوری کرتے ہوئے دیکھا تو نہیں؟‘
’نہیں بالکل نہیں، وہ کنجوس بڈھا تو ابھی بھی سورہا ہوگا‘، اس کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا۔
’تمہیں آج یہ موقع کیسے ملا؟‘
’وہ کنجوس جلدی سوگیا تھا اور تجوری کی چابی اپنے کوٹ کی جیب میں بھول گیا تھا۔‘
’اب چابی کہاں ہے؟‘ اُس کی بیوی نے پوچھا۔
’وہ۔۔۔‘ اس نے سوچا،
’وہ میں نے کوٹ میں رکھ دی تھی، تاکہ پولیس ہمارے گھر کی تلاشی لے تو ہم گرفتار نہ ہوسکیں اور ویسے بھی ہم اس کنجوس کے نوکر ہیں ہمارے گھر کی تلاشی تو ضرور ہوگی۔‘
’ہمیں دن نکلنے سے پہلے اس ساری رقم کو باہر باغیچے میں چھپانا ہوگا‘، اس نے اپنی بیوی سے کہا۔
پھر وہ دونوں بہت احتیاط سے باہر باغیچے میں گئے اور بغیر آواز کیے ہاتھوں سے نرم زمین کو کھودنے لگے، وہ کسی بھی طرح کا اوزار استعمال کرکے لوگوں کو متوجہ نہیں کرنا چاہتے تھے، حالانکہ ہاتھوں سے زمین کھودنے میں انہیں زیادہ محنت کرنی پڑرہی تھی۔
کافی دیر بعد وہ اتنا گڑھا کھود چکے تھے کہ رقم کا تھیلاآسانی سے اُس میں چھپ سکتا تھا، انہوں نے رقم کا تھیلا گڑھے میں چھپا کر اسے احتیاط سے بند کردیا۔
دن نکلنے میں اب تھوڑا ہی وقت تھا وہ کمرے میں آگئے اور اپنے مستقبل کے خواب دیکھنے لگ گئے۔
’میں بہت سے کپڑے لوں گی، اتنے ڈھیر سارے‘، اس کی بیوی نے بازو پھیلا کر بتایا
’ہم تھوڑی سی زمین بھی لے لیں گے اور میں کوئی کاروبار بھی شروع کروں گا‘ اس نے کہا۔
وہ کافی خوش تھے لیکن اچانک اس کی بیوی نے وہ بات پوچھی جس کے بعد اس کی پریشانی بڑھ گئی تھی۔
’ایک بات بتاؤ اگر تجوری کی چابی پر پولیس کو تمہاری انگلیوں کے نشان مل گئے تو ہم کیا کریں گے؟ پولیس ضرور تمہیں گرفتار کرلے گی۔‘
’وہ، وہ۔۔۔ ہاں لیکن۔۔۔ واقعی یہ بات میرے ذہن میں پہلے کیونکر نہیں آئی۔ مجھے فوراً کوٹھی میں جانا ہوگا اور کوٹ سے چابی نکال کر کسی کپڑے سے صاف کرنا ہوگی، اچھا ہوا تم نے یہ بات کہہ دی ورنہ پولیس سے بچنا ناممکن تھا۔‘
وہ یہ کہہ کر پریشانی کے عالم میں گھر سے نکل گیا۔ اُسے رہ رہ کر اپنی حماقت پر غصہ آرہا تھا کہ کیوں اس نے چابی کو صاف نہیں کیا، اسے پولیس اور قید سے سخت خوف آتا تھا۔
وہ جب کوٹھی میں داخل ہوا تو صدر دروازہ ویسا ہی کھلا ہوا دیکھا جیسا وہ چھوڑ کرگیا تھا۔ وہ ابھی اندر داخل ہی ہوا تھا کہ اسے بوڑھے سیٹھ کی آواز آئی ’کہاں تھے تم؟‘ بوڑھے نے پوچھا جو صبح کی سیر کرکے واپس لوٹ رہا تھا اور اس نے وہی کوٹ پہن رکھا تھا۔
’وہ میری بیوی بہت سخت بیمار تھی، میں رات اس کی تیمارداری اور اسے دوا دینے کے لیے گھر گیا تھا‘ اُس نے بوڑھے کے کوٹ پر نظر دوڑائی اور سوچا کہ اب وہ کیسے اس سے کوٹ حاصل کرے۔
’اب کیسی طبعیت ہے تمہاری بیوی کی؟‘
’اب اس کا بخار اتر چکا تھا سو میں لوٹ آیا ہوں، ویسے آپ کا کوٹ کافی میلا ہوچکا ہے کیا میں اسے آج دھوبی کو دھلائی کے لیے دے دوں؟‘
’نہیں نہیں یہ تو بالکل صاف ہے‘، بوڑھے نے کوٹ کو تنقیدی نگاہ سے دیکھ کر کہا۔
’شاید جیبیں پرانی ہوچکی ہیں اور ان کے اندر کا کپڑا کافی بوسیدہ ہوچکا ہے، آپ کو ضرور اسے درزی کو سلائی کے لیے دینا چاہیے، اگر آپ اجازت دیں تو میں آج ہی بازار جاکر اسے درزی سے ٹھیک کرالاتا ہوں۔‘
’جیبیں ہیں تو ٹھیک لیکن تم سچ کہتے ہو اِس کا اندرونی کپڑا کافی پرانا ہوچکا ہے، جاؤ اسے آج درزی سے ٹھیک کرا لاؤ‘، بوڑھے نے یہ کہہ کر کوٹ اُتار کر اس کے حوالے کردیا۔
اس نے بے چینی سے کوٹ لیا اور کوٹھی کے اندر ایک غسل خانے میں گھس گیا، دروازہ بند کرکے اُس نے کوٹ کی جیب کی تلاشی لی لیکن اسے کچھ نہ ملا۔
’چالاک بڈھا، اُس نے پہلے ہی چابی نکال لی ہے‘، اس نے سوچا اور کوٹ باہر آکر ایک صوفے پر رکھ دیا۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا اس کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی، مجھے یقیناً کسی بھی قیمت پر چابی اس کنجوس بوڑھے سے حاصل کرنی ہوگی ورنہ ساری عمر جیل میں رہنا ہوگا۔
اس نے ذہن میں ایک منصوبہ بنایا، باورچی خانے سے ایک چھری لی، صوفے سے کوٹ اٹھایا اور چھری اس کے نیچے چھپا کر بوڑھے سیٹھ کے کمرے میں داخل ہوگیا، بوڑھا سیٹھ تجوری کے سامنے کھڑا چیزیں اِھر اُدھر کررہا تھا۔
’یہ یقیناً تجوری کھولنے والا ہے اور سب کچھ اس پر عیاں ہوجائے گا‘، اس نے سوچا۔
’جناب! جناب! سنیے ایک بات پوچھنی تھی‘، اُس کی آواز غیر ضروری طور پر کافی اونچی تھی۔‘
بوڑھے سیٹھ نے فوراً مُڑ کر پیچھے دیکھا،
’کیا بات ہے اور یہ تم دروازے پر دستک دے کر کیوں نہیں آئے؟‘ بوڑھے سیٹھ کے لہجے میں ناراضگی کا عنصر غالب تھا۔
’جناب میں تھوڑی جلدی میں تھا سو مجھے یاد نہیں رہا‘، اس کی آواز ابھی بھی ڈری ہوئی اور اونچی تھی۔
’اچھا بتاؤ کیا کہنا ہے؟‘
’وہ آج کھانے میں کیا بنانا ہے، میں بازار جارہا تھا سوچا سامان لیتا آؤں گا۔‘
’تمہیں 5 سال ہوگئے ہیں ملازمت کرتے اور تمہیں معلوم ہے کہ میں ایسے سوالوں پر وقت ضائع نہیں کرتا، تمہیں یہ سوال ہرگز نہیں پوچھنا چاہیے تھا۔‘
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔
