عمران خان کے لیے اب یہ ضروری ہے کہ وہ پاکستان کی سی پیک پر لگن اور خلوص کے حوالے سے کسی بھی قسم کے شکوک شبہات کو ختم کردے۔ یہ منصوبہ صدر ژی جن پنگ کے بیلٹ روڈ منصوبے (بی آر آئی) کا ‘فلیگ شپ’ ہے۔ اگر امریکا اور اس کے دوست، بشمول بھارت، سی پیک کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ نقصان چین، اس کے رہنماؤں اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے ایک بڑی ناکام خارجہ پالیسی کے برابر ہوگا۔
بی آر آئی منصوبہ جس قدر چین کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اتنا ہی ترقی پذیر ممالک کے لیے بھی اہم ہے۔ ورلڈ بینک کے اندازوں کے مطابق ترقی پذیر ممالک کو انفرا اسٹریکچر پر سالانہ 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت پڑتی ہے۔ امریکا اور مغرب یا تو مالی ضرورت کو پورا کرنے کی حالت میں نہیں یا پھر کرنا نہیں چاہتے لیکن دوسری طرف چین یہ کام کر رہا ہے۔ مغرب کی جانب سے بی آر آئی کی مخالفت دراصل ’ڈاگ ان دی مینیجر‘ (dog-in-the-manger) کے مترادف ہے یعنی ایک ایسے شخص کی طرح جو بُخل سے کسی ایسی چیز پر اپنا قبضہ جمائے رکھتا ہے جو اس کے کسی فائدے کی نہ ہو۔
بی آر آئی کی ’قرضہ ڈپلومیسی‘ کے طور پر تنقید دراصل مغرب کی صد سالہ پرانی غریب تر ملکوں کے رہنماؤں کے ساتھ سمجھوتے اور وسائل پر ’قبضے‘ کی حکمت عملی دکھا کر ہوائی اندازوں کے سوائے کچھ نہیں۔ سرکاری منصوبوں کے لیے چین کی جانب سے قرضہ انتہائی نرم شرائط پر فراہم کیا جاتا ہے۔
سی پیک میں شامل تمام منصوبے پاکستان میں آنے والے مسلسل آنے والی حکومتوں کے منتخب کردہ ہیں۔ گوادر پورٹ، روڈ اور ریل کے لنکس، تیل اور گیس پائپ لائنز، ان سب کا تعین مشرف حکومت کے دوران ہوا جبکہ اس میں توانائی کے منصوبے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شامل کروائے۔ ان میں سے زیادہ تر منصوبے پاکستان میں صنعت کاری اور اقتصادی پھیلاؤ میں پاکستان کو آگے لے جانے میں مدد کریں گے۔
جیسا کہ پہلے سے یہ طے ہے کہ سی پیک کا اسکوپ مستقبل میں مزید وسیع کیا جائے گا۔ خصوصی اقتصادی زونز برق رفتار صنعت کاری اور برآمدات کے پھیلاؤ کا موقع فراہم کرسکتے ہیں۔ سی پیک ’سماجی انفرا اسٹریکچر‘، جیسے تعلیمی ادارے، صحت مراکز، کوڑا کرکٹ اور گندے پانی کے ٹریٹمنٹ پلانٹس، عوامی سہولیات، ہاؤسنگ منصوبوں اور ماحولیاتی تحفظ کے منصوبوں کو بھی اپنے اندر شامل کرسکتا ہے۔
پاکستان اور چین دونوں نے سی پیک میں تیسرے ملک کی شراکت کے لیے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ گوادر میں سی پیک منصوبوں کے ساتھ سعودی سرمایہ کاری کی آمد بھی ہوگی۔ چند مغربی کمپنیاں تو پہلے ہی اس میں حصہ لے رہی ہیں اور سی پیک منصوبوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔