یہ انکشاف بھی نیا نہیں ہے کہ شہروں کی جانب منتقلی، غربت میں کمی اور پانی کی فراہمی اور نکاسی آب و صفائی کی سہولیات تک رسائی کے درمیان مضبوط تعلق ہے۔
کئی دہائیوں قبل ریاست کی جانب سے ترقی کا معیار اس کی آبادی، بشمول شہروں سے باہر رہنے والی آبادی کی شہری سہولیات مثلاً پینے کے لیے محفوظ پانی، بجلی، گھر سے نزدیک اسکول، بنیادی طور پر ضروری طبی سہولیات اور فائدہ مند ملازمت کے مواقع تک رسائی سے ناپا جاتا تھا۔ پاکستان کے لیے یہ ماڈل اکثر تجویز کیا جاتا ہے کیونکہ یہ شرحِ پیدائش، نومولود بچوں اور ماؤں کی اموات اور شہروں کی جانب منتقلی میں کمی کی یقین دہانی کرواتا ہے۔
مگر شہروں کی جانب منتقلی اور خدمات کی بہتر فراہمی بھی پاکستان کے شہریوں کی غربت میں کمی اور پانی اور صحت و صفائی کی سہولیات تک رسائی ایک حد تک بہتر بنا سکتی ہے۔
ملک بھر کی آبادی کو غربت سے نجات دلانے اور آلودہ پانی استعمال کرنے کے خطرات سے چھٹکارہ دلانے کو یقینی بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو زمین کی غیر منصفانہ ملکیت کے طریقوں، جاگیرداری کلچر اور سرپرستانہ نظام کا خاتمہ فوری طور پر کیا جائے۔
ان سمتوں میں بامعنی ترقی کے بغیر پاکستانی آبادی کا ایک بڑا حصہ بڑھتی ہوئی غربت، شہری کچی آبادیوں میں رہنے اور ملکی ترقی میں خواتین کے کردار کو نہ پہچاننے اور بچوں کی نشونما رک جانے میں پھنسا رہے گا۔
انگلش میں پڑھیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار مین 15 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔