ہمارے نظام میں گندھا ہوا یہ اشرافیہ دوست رویہ نہ صرف ہمارے بڑھتے ہوئے طبقاتی فرق میں مزید اضافے کی وجہ بنتا ہے بلکہ قدرتی ماحول کی تباہی کا سبب بھی بنتا ہے۔ زمین، جنگلات، پانی اور معدنیات، سب کو غیر مستحکم و ناپائیدار انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ غریب ترین لوگوں کی جانب سے روز مرہ کی زندگی گزارنے کی کشمکش بھی اس مسئلے میں اپنا حصہ ڈالتی ہے مگر اس بڑھتے ہوئے ماحولیاتی بحران کی ذمہ داری بنیادی طور پر امیروں اور طاقتوروں، اور ان کے ساتھ ساتھ ہمارے منصوبہ بندوں کی ہے جو ہماری مستقبل کی نسلوں کی قسمت سے عموماً لاتعلق ہیں۔
میرا تجربہ یہ ہے کہ غریب ان تمام عوامی وسائل کے لیے ادائیگی کرنے کو تیار ہیں جنہیں وہ استعمال کرتے ہیں۔ کچی آبادیوں کے رہائشی نچلی سطح کے حکومتی اہلکاروں کی جیبیں بھرنے کے بجائے ایک کم قیمت گھر کے لیے حکومت (یا نجی شعبے) کو بخوشی رقم کی ادائیگی کریں گے۔
اسی کلیے کا اطلاق ان چھوٹے دکانداروں پر بھی ہوتا ہے جو ذاتی اور پوشیدہ لین دین کے بجائے تحفظ کو ترجیح دیں گے۔ چنانچہ ذمہ داری ایک بار پھر ان کے کندھوں پر ہے جن کا کام ہی یہ ہے کہ وہ آبادی کے تمام حصوں کے روزگار اور رہائش کی ضروریات کے لیے باقاعدہ انتظامات کریں۔
ویسے تو ایمپریس مارکیٹ کا آپریشن کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) نے کیا تھا مگر موجودہ حکومت کی خاموشی الفاظ سے زیادہ بلند آواز میں کچھ کہہ رہی ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے حال ہی میں ایک ٹاسک فورس قائم کی تاکہ 50 لاکھ گھر تعمیر کیے جا سکیں۔ مگر اس مرحلے پر ہونے والی پیش رفتوں کو دیکھنے والا ایک عام آدمی بھی سنجیدہ منصوبہ بندی کی کمی کا اندازہ لگا سکتا ہے اور یہ ماننے کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں کہ اگر زمینی حقائق کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور سیاسی عزم و ارادہ پیدا نہیں کیا جاتا، تو یہ منصوبہ بھی سٹے بازوں اور کرایہ طلب ریاستی اہلکاروں کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔
کہانی کا نتیجہ: اگر آپ امیر ہیں تو تجاوزات قائم کرتے رہیں اور اگر غریب ہیں تو ایسے مزید آپریشنز کے لیے تیار رہیں۔
انگلش میں پڑھیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 16 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔