20سال پہلے لکھی تحریر فہمیدہ ریاض کی زندگی میں سامنےکیوں نہیں لایا؟
کاغذ تیرا رنگ فق کیوں ہوگیا
شاعر ترے تیور دیکھ کر
کاغذ ترے رخسار پہ یہ داغ کیسے ہیں
شاعر میں ترے آنسو پی نہ سکا
کاغذ میں تجھ سے کیسے سچ کہوں
شاعر مرا دل پھٹ جائے گا
منگل کی شام ڈان نیوز سے نکلتے ہوئے فہمیدہ کی بجھتی ڈوبتی آواز آئی، ’مہینے بھر سے لاہور میں ہوں۔ میں تو آ نہیں سکتی۔ تم ہی آجاؤ۔‘
میں نے کہا۔ ’طبیعت کیسی ہے؟‘
کہا۔ ’پہلے سے بہتر ہے۔ بیٹی ویرتا کے بچوں میں دل بہل جاتا ہے۔‘
میں نے کہا ’فیض میلے میں آپ کا نام نہیں سنا۔‘
کہا۔ ’اُن کی بیٹیوں، نواسیوں، نواسوں کو شاید میرے لاہور میں ہونے کا علم نہ ہو، اور اگر علم بھی ہوتا تو شاید فیض صاحب سے خاص تعلق کا پتہ نہ ہو۔‘
اور پھر ہنستے ہوئے کہا
ہوگیا دل کاخوں
دل کا خوں ہوگیا
بدھ کے دن 12 ربیع الاول کی چھٹی کے سبب شام کو گھر پر ہی تھا کہ اچانک ناجانے کیوں فہمیدہ کی باتیں شروع ہوگئیں۔ میری بیٹی کا نام گل رخسار انہوں نے ہی رکھا تھا۔
40 سال پرانی باتیں۔ جب وہ سلیو لیس بلاؤز میں ساڑھی سنبھالے ہاتھ میں ’کے ٹو‘ سگریٹ کو پھونکتے بسوں میں اس طرح سفر کرتیں جیسے لندن میں ہوں۔ جسے وہ چھوڑ کر پاکستان میں انقلاب لانے کے لیے جتی ہوئی تھیں۔ پچھلی 3 دہائی میں بے شمار ایسے مواقع آئے جب مجھے فہمیدہ کی شخصیت اور شاعری پر کچھ پڑھنا ہوتا تھا مگر 20 سال پہلے لکھی تحریر کو آگے بڑھانے کا حوصلہ ہی نہیں ہوا۔ لکھتا بھی کیا کہ دہائیوں سے ان کی زندگی جس طرح گزر رہی تھی، اُس کو دیکھ کر آنکھوں میں تراوٹ اور قلم میں تھراہٹ آجاتی ہے۔
رات 11 بجے خالد احمد کا فون آیا ’ہماری تمہاری 40 سالہ رفیقانہ دوست اب نہیں رہی۔‘ اس خبر کا ادھر چند برسوں سے مجھے انتظار تھا۔ برسوں پہلے لکھے جس فسانے کو فہمیدہ کے لیے لکھا تھا، اُسے دوبارہ تازہ کرتے ہیں۔
یہ ہمارے یونیورسٹی کے آخری دن تھے۔ اُس وقت نہ نوکری تھی اور نہ ہم کُل وقتی پارٹی ممبر تھے۔ کامریڈ ڈاکٹر قمر عباس ندیم نے ادب سے ہمارے شغف اور پھر نیک کاموں میں مصروف رکھنے کے لیے ینگ رائیٹرز فورم میں لگا دیا تھا۔
ینگ رائیٹرز فورم کا ابتدا میں، مَیں نے ذکر اس لیے کیا کہ ہماری فہمیدہ ریاض سے ملاقات اور پھر ’دوستی‘ یہیں ہوئی۔ (اب اس لفظ دوستی میں وہ بے پناہ مٹھاس، چاہت، اپنائیت اور محبت نہیں رہی مگر مجبوری ہے کہ کوئی دوسرا لفظ اس جگہ اس تعلق سے ذہن میں آ بھی نہیں رہا)۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب جو فہمیدہ سے 5، 7 سال چھوٹے تھے، مگر انہیں دیکھتے ہی ان کے ’عاشق‘ ہوچکے تھے۔
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے
سب اسی زلف کے اسیر ہوئے
ایک طویل عرصے تک فہمیدہ پر نہ لکھنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ مجھے احساس تھا کہ میں فہمیدہ کی شخصیت اور پھر شاعری کا جب بھی سرا تلاش کرنے کی کوشش کروں گا تو یہ تیز مانجھے کی طرح ہاتھ سے پھسلے گی ہی نہیں جگہ جگہ سے انگلیاں لہو لہان بھی کردے گی۔