رواں سال صوبہ سندھ میں معمول سے 71 فیصد اور بلوچستان میں 44 فیصد کم بارشیں ہوئیں۔ ڈیموں میں پانی کی سطح پچھلے 9 برسوں کی کم ترین شرح پر آگئی۔
پانی کی کمی سے زراعت اور لائیو اسٹاک شدید متاثر ہوا ہے ۔ تھر پارکر کی صورتحال کافی بدتر ہے جہاں آئے دن ماؤں میں غذا کی کمی کے باعث نوزائیدہ بچے جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور حالات سے تنگ آکر خودکشی کرنے والوں کی شرح ملک بھر سے زیادہ ہے۔
انڈس ڈیلٹا کی ایک گھاٹی محفوظ علاقہ قرار
ماحولیاتی تحفظ کے ضمن میں ایک بڑا واقعہ یہ بھی ہے کہ حکومت کی جانب سے انڈس ڈیلٹا کی ایک گھاٹی کو محفوظ سمندری علاقہ (Marine Protected Area) قرار دیا گیا ہے۔ یہ گھاٹی خصوصی اقتصادی زون (EEZ) میں واقع ہے اور اس کا رقبہ 27 ہزار 607 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔
سمندر کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق ہمیں 2020ء تک سمندری علاقے کے کم از کم 10 فیصد حصے کو محفوظ قرار دینا ہے تاکہ وہاں قدرتی طور پر موجود حیاتیات پھل پھول سکے۔ اس سے قبل بلوچستان میں موجود اسٹولا جزیرے کو محفوظ سمندری علاقہ قرار دیا جاچکا ہے۔ انڈس ڈیلٹا کی یہ گھاٹی بھی متنوع حیاتیات سے مالا مال ہے۔ یہاں شارک، وہیل اور ڈولفن سمیت بہت سی سمندری حیات دیکھی جاسکتی ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ اس سے ہمارے سمندر میں حیاتیاتی نشوونما ہوسکے گی۔
گلیشائی جھیلوں کے سیلاب سے بچاؤ
گلیشائی جھیلوں کے پھٹنے سے علاقے اور آبادیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے منصوبے کا پہلا 5 سالہ دور 2015ء میں کامیابی سے مکمل ہوچکا ہے، جس کے بعد اس منصوبے کے دوسرے حصے کا اس سال آغاز کیا جارہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے ماحول کے تحفظ اور خطرات میں گھری آبادیوں کو بچانے کے لیے مختص فنڈ ’گرین کلائمیٹ فنڈ‘ سے اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے 3 کروڑ 60 لاکھ امریکی ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔
یہ منصوبہ گلگت بلتستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کے 15 اضلاع کی 2 کروڑ 90 لاکھ آبادی کے لیے کافی فائدہ مند ثابت ہوگا۔ پاکستان اور خصوصاً شمالی پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیئرز پگھلتے ہیں اور ان میں جھیلیں بننے لگتی ہیں جو پانی کی زیادتی سے پھٹ جاتی ہیں اور ان کا پانی انتہائی تیزی سے سیلاب کی صورت نشیبی آبادیوں کے لیے خطرہ بن جاتا ہے، جس سے ماحولیاتی، معاشی اور سماجی سطح پر بدترین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اس منصوبے کا آغاز اس سال کے اواخر میں ہوگا۔
ماحولیاتی ہجرت
پاکستان میں بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جس کی وجہ سے متاثرہ علاقوں سے لوگوں کے پاس نقل مکانی کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ شہر پہلے ہی گنجان آباد ہیں اور یوں مزید لوگوں کی آمد صورت حال کو بدترین بنا دیتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلی دہائی سے اندرون ملک نقل مکانی میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے خصوصاً سمندری پانی کی آمد سے زرعی زمینوں کی تباہی اور پینے کے پانی کی عدم دستیابی سے ساحلی علاقوں سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ تھرپارکر کے مختلف علاقوں میں خشک سالی سے نقل مکانی کا یہ عمل تیز ہورہا ہے۔ اگر حکومت نے ان ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے خصوصی اقدامات نہیں کیے تو آئندہ مزید ابتری پیدا ہوسکتی ہے۔
60فیصد جنگلی حیات کا خاتمہ
رواں سال جاری جنگلی حیات کے تحفظ کے عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ The Living Planet Report نے بھی ماحول کے لیے کام کرنے والوں کی فکر میں اضافہ کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق انسانوں کے عاقبت نااندیش اقدامات نے صرف 4 دہائیوں میں کرہءِ ارض سے 60 فیصد جنگلی حیات، دنیا بھر کے سمندروں میں پائی جانے والی مونگے کی چٹانیں اور دنیا کے سب سے بڑے بارانی ایمیزون کے جنگلات کے 5ویں حصے کا صفایا کردیا ہے۔