یہ مثبت تبدیلی جوئینائل جسٹس سسٹم آرڈینینس، 2000 متعارف کیے جانے کے بعد سامنے آئی، جس نے لبرل ضمانت پر رہائی کو فروغ دیا۔ تاہم، بچوں کو کن حالات میں قید رکھا جاتا ہے اس پر آرڈینینس اور اب جس نئے ایکٹ نے اس کی جگہ لی ہے اس میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔
بنیادی طور پر ہماری جیلوں میں بچوں کو الگ رکھا جاتا ہے اور ہم ان پر صرف ایک یہی احسان کرتے ہیں۔ جبکہ باقی تمام عملی مقاصد کے لیے، جیل کے بالغ قیدیوں کو سنبھالنے والااسٹاف ہی وہاں موجود ہوتا ہے جو بچوں کے ساتھ عام قیدیوں جیسا ہی رویہ روا رکھتے ہیں۔
تمام بچوں کو ہالز میں رکھا جاتا ہے اور ہال کا ایک حصہ کھلا ہوتا ہے جہاں بچے زمین پر پہلو بہ پہلو سوتے ہیں۔ ایک حصہ کھلی ہونے کی وجہ سے موسم سرما میں ہالز ٹھنڈے ہوجاتے ہیں۔ ٹوائلٹس بھی ہالز میں ہی بنے ہوتے ہیں جہاں فلش اور سیوریج کا نظام اکثر و بیشتر ناکارہ ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے پوری جگہ میں بدبو پھیلی ہوتی ہے۔
بچے سارا دن فارغ بیٹھے رہتے ہیں اور 4 بجے انہیں دوبارہ حوالات میں بند کردیا جاتا ہے۔ ایسے زیادہ تر قید خانے ٹی وی اور انڈور کھیلوں کی سہولت سے محروم ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے بچوں کے پاس وقت گزارنے کے لیے کوئی سرگرمی نہیں ہوتی۔ ٹیکنیکل، ووکیشنل یا کھیلوں کی سہولیات تو ایک طرف تعلیمی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہوتیں۔
ہمارے بچے بھی ایران کے بچوں کی طرح بہتر حالات کے مستحق ہیں۔ ایران ان اصلاحی مراکز کو کسی دوسرے سے مالی و تکنیکی مدد مانگے بغیر مکمل طور پر اپنے طور پر چلاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف ہم یہاں چھوٹے چھوٹے کاموں اور کبھی کبھار کمپیوٹر یا ٹی وی جیسی چھوٹی چیزوں کے لیے بھی ڈونر کو درخواست کرتے ہیں۔ اس لیے ایران بالکل اپنے اس اصلاحی مرکز پر فخر کرنے کا حق رکھتا ہے، اور ساتھ ساتھ ہم یہ بھی خواہش رکھتے ہیں کہ پاکستان میں بھی بچوں کو بہتر حالات اور سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ہم بھی اپنا سر فخر سے اونچا کرسکیں۔
یہ مضمون 16 دسمبر 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔