قصہ سوات میں واقع راجا گیرا کے قلعے کا
قصہ سوات میں واقع راجا گیرا کے قلعے کا
تاریخ سے شغف اس روز ہمیں شگئی اور اوڈیگرام کو ملانے والے دیوقامت پہاڑ کی چوٹی تک کھینچ لایا تھا۔ چوٹی پر کھڑے ہوکر ہم پوری وادی کا نظارہ کر رہے تھے۔
آدمی کو بلندی سے نظارہ کرتے ہوئے ایک طرح سے احساسِ تفاخر گھیر لیتا ہے، اس مقام پر کھڑے ہوکر ایک لمحے کے لیے گویا میں خود کو بھی راجا محسوس کرنے لگا۔ آس پاس کے مقامات دیکھنے اور پوری وادی کا نظارہ کرنے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی ریاست کے لیے یہاں تازہ اور میٹھے پانی کا بندوبست کرنا کسی چیلنج سے کم نہ ہوگا، لیکن آج سے ٹھیک ایک ہزار سال پہلے راجا گیرا اس چوٹی تک دریائے سوات کا تازہ اور میٹھا پانی کھینچ لانے میں کیسے کامیاب ہوا؟ کہانی دلچسپ ہے، چلیے بیان کیے دیتے ہیں۔
سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے 6 کلومیٹر کی مسافت پر اوڈیگرام گاؤں میں ایک پہاڑی کے اوپر راجا گیرا کے قلعے کے آثار موجود ہیں جو یہاں کے آثارِ قدیمہ میں خاص اہمیت بھی رکھتے ہیں۔ اس کھنڈر بن چکے قلعے میں کھڑے ہوکر آج بھی پوری وادی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔
اوڈیگرام ہر حوالے سے ایک تاریخی اہمیت کا حامل گاؤں ہے۔ یہاں جابجا بکھرے آثار اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ علاقہ کسی زمانے میں تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا ہوگا۔ سوات کے مشہور ادیب اور سینئر صحافی فضل رابی راہیؔ اوڈیگرام کی تاریخی حیثیت کے حوالے سے اپنی کتاب ’سوات سیاحوں کی جنت‘ کے صفحہ نمبر 70 پر کچھ یوں رقم طراز ہیں کہ، ’کہا جاتا ہے کہ سکندرِ اعظم کے حملے سے قبل اوڈیگرام ایک بڑا شہر تھا۔ یہاں کے لوگ ترقی یافتہ اور متمدن تھے۔ اس کا ثبوت گیرا پہاڑ کے قدیم آثار اور اوڈیگرام کے قرب و جوار میں بکھرے ہوئے آثارِ قدیمہ سے ملتا ہے۔‘