اس طرح کام چل جائے گا؟ یقیناً نہیں، اور نہ ہی لاہور کی اشرافیہ اور نوآبادیت کے بعد وجود میں آنے والی دنیا (postcolonial world) کے پار رہنے والی اشرافیہ ماحولیاتی تباہ کاری دوسرے کو ٹھیکے پر دے سکتیں ہیں، جس طرح امیر ممالک نے ماضی میں کیا اور اب بھی کررہی ہے۔ کرہءِ ارض کو لاحق اس بحران کے بارے میں ایک حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ جب دنیا کا کوئی ایک خطہ ان تباہ کاریوں سے محفوظ رہنے کے قابل نہیں رہے گا اور جیسے جیسے ماحولیاتی تبدیلی میں شدت آتی جائے گی اس کی تباہ کاریاں دنیا میں عام ہوتی جائیں گی۔
لہٰذا ممکن ہے کہ مستقبل میں اشرافیہ طبقہ جدید ماسکوں اور آکسیجن سلینڈر سے لیس ہوکر اپنے گھروں سے باہر نکلیں گے۔ ویسے یہ کہنے کی ضرورت تو ہرگز نہیں ہے کہ یہ سہولت ان لوگوں کو بالکل بھی میسر نہیں ہوگی جو ’فری مارکیٹ‘ سے مذکورہ سامان خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہوگا۔ اگر آپ کو یہ کسی دوسری دنیا کی بات لگتی ہے تو ذرا بوتل بند ’منرل‘ والے پانی کے بارے میں سوچیے، چند دہائیوں قبل لوگوں کو یہ بات بھی کسی دوسری دنیا کی لگی ہوگی کہ صاف پانی اشرافیہ کو فروخت کرنے کے لیے دستیاب ہوگا جو ایسا آلودہ پانی پینا نہیں چاہتے جو ادنیٰ طبقے کے لوگوں کے لیے ایک مسئلہ بنا ہوا ہو اور جس کے بارے میں وہ زیادہ بہتر انداز میں جانتے نہیں ہیں (بلکہ یوں کہیے کہ وہ صاف پانی خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے۔)
عالمی سیاسی و اقتصادی نظام، جسے ہم سرمایہ دارانہ نظام پکارتے ہیں، اس کی سفاک اصلیت ظاہر کرنے کے لیے اس سے بڑھ کر بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کے نزدیک ماحولیاتی بحران کے جو حل پیش کیے جا رہے ہیں ان کا نمایاں طور پر اس مسئلے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے؟ اس کی تعریف تو کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ، سرمایہ دارانہ ترقی نے باہمی انحصار والی دنیا کو جنم دیا ہے جس میں زبردست عدم برابری کو دیکھا جاسکتا ہے، یعنی چند علاقوں اور وہاں کے لوگوں کی دولت اور خوشحالی کا براہِ راست تعلق دیگر علاقوں اور وہاں کے لوگوں کی غربت اور بدحالی سے جڑا ہے۔ اب تو یہ بھی واضح ہے کہ سرمایہ دارانہ ترقی کی تباہ کاریوں کو بھی عدم براری کے ساتھ دنیا میں تقسیم کیا گیا ہے، یعنی غریب اور محروم طبقوں کو امیروں کے بے پناہ ٹھیکوں سے حاصل ہونے والا بوجھ بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
اشرافیہ ریت میں سر چھپا کر زیادہ عرصے تک اس بحران سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکے گی۔ انسانیت کی بقا ایک ایسے سیاسی ردِعمل میں ہے جس میں زمین کی خستہ حالی اور وہ شعوری عناصر شامل ہوں جو اصل اور مستحکم متبادل کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوں۔ اس ردِعمل کو کس طرح بیدار کیا جائے اس پر سوچنا ہمارے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
یہ مضمون 11 جنوری 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔