دوسری طرف، طالبان کو خطے کی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ حتیٰ کہ طالبان کی جانب سے کابل انتظامیہ سے مذاکرات کے انکار پر ایران ان کی حوصلہ افزائی تو کرتا ہے لیکن ان کے وزیرِ خارجہ نے نئی دہلی میں یہ اعلان کیا تھا کہ تہران مستقبل کی حکومت میں طالبان کی غالب طاقت نہیں چاہتا۔ روس بھی ایک متوازن نتیجہ چاہتا ہے جبکہ چین پاکستان کی طرح طالبان حکومت کی سربراہی میں بننے والی حکومت کو قبول کرسکتا ہے، مگر یہ ایک تھوپے گئے حل کے بجائے ایک مذاکراتی حل کو فوقیت دے گا۔
طالبان نے اب تک اچھا کھیل کھیلا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اس کھیل میں اب تک جو جیتا ہے صرف اس کے ساتھ ہی خوش رہیں۔ طالبان کی جنگی فتح کو امریکا اور خطے کی طاقتوں دونوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان کے اسٹریٹجک مقاصد کے لیے دیرپا سیاسی حل ہی بہترین ثابت ہوگا۔ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں مذکورہ دونوں مسائل کے سفارتی حل نکالنے کے لیے اسلام آباد بہتر پوزیشن میں ہے۔
ایک بین الاقوامی یا اقوام متحدہ کی انسدادِ دہشتگردی فورس اقوام متحدہ اور/یا تنظیم تعاون اسلامی (او آئی سی) کے ذریعے بنائی جاسکتی ہے۔
کابل میں عبوری یا غیرجانبدار حکومت کے قیام، انتخابات کو التوا میں ڈالنے اور اس کے ساتھ ایک مقررہ وقت کے لیے جنگ بندی سے طاقت کی تقسیم کے فارمولے پر افغان داخلی مذاکرات اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان سے امریکا اور نیٹو افواج کے نظم و ضبط کے ساتھ انخلا کا موقع فراہم ہوسکتا ہے۔ افغان پارٹیوں کو حل قبول ہو، اس کے لیے ان کے ساتھ امریکا، یورپ، چین اور گلف کوپریشن کونسل (جی سی سی) کی جانب سے مستقبل میں مالی معاونت کے وعدوں سمیت انہیں مناسب مراعات کی پیش کش بھی کی جاسکتی ہے۔
پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے مربوط اور خطے کے دیگر کھلاڑیوں کے مفادات میں بہتر سفارتی کردار کو ذاتی مفادات کے لیے بھی استعمال کرنا ہوگا، مثلاً، پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کو نارمل سطح پر لانا، افغانستان کی زمین سے ہونے والی بلوچستان لبریشن آرمی اور تحریک طالبان پاکستان کی دہشتگردی کا خاتمہ، افغان مہاجرین کی واپسی اور سی پیک کا پھیلاؤ اور اس پر بلا تعطل عمل، امریکا کی جانب سے اعتراض کا خاتمہ اور اس منصوبے میں جی سی سی کی شراکت داری۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 20 جنوری 2019 کو شائع ہوا۔