Dawn News Television

اپ ڈیٹ 25 جنوری 2019 05:39pm

انور جلال شمزا: شہرِ لاہور تیری رونقیں دائم آباد

انور جلال شمزا: شہرِ لاہور تیری رونقیں دائم آباد

حسنین جمال

شہر لاہور تیری رونقیں دائم آباد

تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو

بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں شہرِ لاہور کی رونقیں، یہاں کی آب و ہوا کھینچ کھینچ کے لاتی ہے مگر رزق کا تار کہیں اور بندھا ہوتا ہے۔ وہ اُدھر سے دامن چھڑانا چاہتے ہیں، وہ یہاں رہنا چاہتے ہیں، جیسے کوئی بچہ اسکول جاتے ہوئے ایڑھیاں رگڑتا ہے، کیونکہ وہ گھر رہنا چاہتا ہے، بالکل اسی طرح وہ بھی اپنے گھر رہنا چاہتے ہیں لیکن شہرِ لاہور، اس کی گلیاں کھینچتی ہیں مگر آسمان کی مہربانیاں تنگ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ تب انہیں شہر چھوڑنا پڑتا ہے۔

وقت کا پٹہ گلے میں ڈالے چلنے کے لیے کچھ بھی کرنا پڑتا ہے۔ انور جلال شمزا نے شہر کیا چھوڑنا تھا، ملک چھوڑ دیا۔ پاکستان سے جاتے وقت بھی وہ مشہور مصور تھے لیکن شہرت سے پیٹ کبھی نہیں بھرتا، جب باہر ملک آرٹ پڑھانے کے اچھے پیسے ملنے لگے اور اپنے ملک میں دھیلے کی نوکری نہ دکھائی دی تو ان کا واپس پلٹنا مشکل ہوتا گیا۔

ان کے برعکس زاہد ڈار نے شہرِ لاہور سے باہر قدم نہیں رکھا، وقت کا پٹہ، رزق کی کشش، سب سے دامن بچائے بیٹھے رہے۔ وہ اب بھی مطمئن ہیں، لیکن دنیاداروں کی نظر میں کامیابی اسے نہیں کہا جاسکتا کہ جو گزر بسر ان کی ہے۔ وہ بس شان بے نیازی اور ناکامی کے درمیان کی ایک منزل ہے۔ انہیں تو اب یہ اوپر والا شعر بھی کچھ خاص پسند نہیں۔ پرسوں ریڈنگز گیا تو ڈار صاحب حسبِ معمول اپنی کرسی پر بیٹھے تھے اور سامنے ناصر کاظمی کی 2 کتابیں رکھی تھیں۔

بعض اوقات یونہی بات چلانے کو بھی کوئی سوال کرنا پڑتا ہے تو پوچھا کہ ڈار صاحب کتنے عرصے بعد پڑھ رہے ہیں ناصر کاظمی کو؟ کہنے لگے ’یا تو اس وقت پڑھا تھا جب رسالوں میں چھپتا تھا، یعنی 1955ء اور 1956ء میں، کہ اُدھر کوئی نئی چیز چھپی اِدھر پڑھ لی، یا پھر اب پڑھ رہا ہوں، حساب لگا لو کتنا عرصہ ہوگیا‘۔

تھوڑی دیر چپ رہے، پھر کہنے لگے کہ ’یار اب تو بہت سے شعر پہلے جیسا مزہ ہی نہیں دیتے، جیسے یہ شعر ہے، کاغذ ڈھونڈ کے نکالا، ادھر لائن پر انگلی رکھی، کتاب میری طرف کردی، شعر یہی تھا، شہرِ لاہور تیری رونقیں دائم آباد/ تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو۔ کہا، پہلے تو یہ شعر ایسے مزے سے میں پڑھتا تھا، عجیب کیفیت ہوتی تھی، اب کچھ بھی نہیں ہوتا‘۔

قصہ یوں ہے کہ انتظار حسین، ناصر کاظمی، زاہد ڈار، احمد مشتاق، انور جلال شمزا یہ سب دوست تھے۔ یہ ساری پارٹی پاک ٹی ہاؤس والی تھی، اور وہ شعر سب کے پسندیدہ ترین شعروں میں تھا، اس کی فیلنگ ہر جوان دل کو پسند تھی۔ تو سب سے پہلے شمزا باہر گئے اور ان کے بعد احمد مشتاق بھی چلے گئے۔ جو باہر جاتا ہے وہ ہمیشہ اس ارادے سے جاتا ہے کہ یار آخر واپس وطن آنا ہے، اپنے گھر لوٹنا ہے، لیکن اسے پتہ نہیں ہوتا کہ ایک بار جو پاؤں باہر رکھا گیا وہ پھر مَر کے واپس آئے تو آئے، جیتے جی اس پاؤں کا واپس لوٹنا اور آباد ہوجانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔

انور جمال شمزا

تو شمزا اور احمد مشتاق دونوں لاہور کو برابر مس کرتے رہے، دوستوں کو یاد کیا۔ زاہد ڈار کہتے ہیں کہ ’احمد مشتاق تو اب بھی مجھے فون کرتا ہے، بعض وقت تو بڑے بڑے لمبے فون کرتا ہے، لیکن اتنی باتیں اب مجھ سے فون پر ہوتی ہی نہیں، کبھی کبھی میں فون اٹھا نہیں پاتا تو وہ پھر اُسے فون کر لیتا ہے، وہ اخبار والے کو، اس سے پھر سب کے حال چال پوچھتا رہتا ہے۔

اسی طرح انور جلال شمزا کا معاملہ تھا۔ وہ 2 مرتبہ پوری سنجیدگی سے کوشش میں رہے کہ واپس پاکستان میں کسی طریقے سے آکر سیٹ ہوا جائے لیکن حالات نے ساتھ نہیں دیا۔ وہ میو اسکول آف آرٹ (این سی اے) میں نوکری کرنا چاہتے تھے، اپنے ملک کے لوگوں میں آرٹ کا شعور جگانا چاہتے تھے لیکن انہی دنوں شاکر علی بھی اسی ارادے سے پاکستان میں تھے، لہٰذا ان کو تو جاب مل گئی، مگر شمزا کو واپس لوٹنا پڑا۔ ہاں شاید کچھ مسئلہ ان کی اہلیہ کا بھی ہو جو لندن سے تھیں۔ باہر والوں کے لیے دیسی ماحول میں گُھل مل جانا تب بھی اتنا ہی مشکل تھا جتنا آج ہے اور ان کی بیوی تو اس وقت بھی ایک کلچرڈ خاتون اور ماڈرنسٹ مصور تھیں۔ پھر جب انور جلال شمزا فوت ہوتے ہیں تو ان کی بیوی ڈیڑھ سو تصویریں لے کر پاکستان آتی ہیں اور اسی برس ان کی نمائش کرتی ہیں۔ یہ نمائش لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پشاور میں ہوتی ہے۔ ان کے مطابق یہ کام شمزا اپنی زندگی میں کرنا چاہتے تھے۔ گھر واپس جب آؤ گے تم، کون تمہیں پہچانے گا؟‘

وہ اپنے ملک کے لوگوں میں آرٹ کا شعور جگانا چاہتے تھے

شمزا کی تصویروں میں چند چیزیں بے تحاشا ہیں۔ مثلاً حروف اور دائرے اور چوکور شکلیں، جیومیٹریکل ڈیزائن، محرابیں، پرانا اسلامی آرکیٹیکچر، اردو اور انگریزی حروف جیسے بی، ڈی اور میم کی مختلف شکلیں، بجلی کے سرکٹ بورڈ جیسے ڈیزائن، چوکھنڈی کی قبروں والے موٹفس، تتلیاں، پیانو کے بٹن، گلیاں، کشیدہ کاری ٹائپ ماحول اور کچھ قالین نما نقش و نگار اور اس سب کی اپنی وجہ ہے۔

لفظ اور جیومیٹریکل شکلیں تو اس وجہ سے ہیں کہ بنیادی طور پر وہ لفظوں کی دنیا ہی کے آدمی تھے۔ اچھے بھلے مصنف تھے، 6 ناول بھی لکھے تھے (زمیں آسمان، قصہ کہانی، زرد پتہ، اکیلا آدمی، سوتے جاگتے)۔ یہ وہ وقت تھا جب اکثر مصور ناول، افسانے، شاعری وغیرہ میں پیچ لڑانا ضروری سمجھتے تھے۔ شاکر علی، تصدق سہیل، آذر زوبی، حنیف رامے اور عبدالرحمن چغتائی وغیرہ، کافی لوگ تھے جو ساتھ ساتھ لکھتے بھی رہے۔ شمزا نے لیکن اسٹیج اور ریڈیو پروگراموں کے لیے بھی اسکرپٹ تحریر کیے۔ احساس نامی 15 روزہ جریدہ بھی ایڈٹ کیا۔ چونکہ خوبصورت تھے تو فلمی ہیرو بننے کے خواب تک دیکھے، لیکن جب یہ سب کچھ کرکے خاص بات نہیں بنی تو اپنے قدرتی ٹیلنٹ کی طرف مُڑ گئے۔ سب کچھ چھوڑ کے مصوری کو اپنا لیا۔

سوتے جاگتے کا سرورق

قصہ کہانی کا سرورق

خطاطی کا معاملہ یوں ہے کہ آپ جانتے بوجھتے ہوئے خود کو چند قاعدوں میں قید کر لیتے ہیں۔ اتنے قط میں جیم لکھنا ہے، اتنے قط پر میم آئے گا، واؤ ایسے بنانا ہے اور دو چشمی ھ کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے، یہ سب کچھ پہلے سے طے ہوتا ہے۔ بہت زیادہ چھلانگ ماریں گے تو اپنا کوئی نیا فونٹ ایجاد کرلیں گے۔ جیسے نستعلیق ہے، ثلث ہے، نسخ ہے اور یہ سب پرانے ہیں تو اپنے اسلم کمال صاحب نے خطِ کمال بنا لیا اور کیا کمال بنایا! لیکن، بات بند ہوگئی، آپ زیادہ مٹر گشت نہیں کرسکتے۔ افق محدود ہے۔ تو آزاد طبیعت لوگ مصوری کو ترجیح دیتے ہیں، اس کے اندر کہیں خطاطی کا شوق پورا کرتے رہتے ہیں۔ وہی شمزا نے کیا، وہی صادقین نے کیا، وہی گل جی نے کیا اور دو چار مرتبہ شاکر علی نے بھی وہی کیا۔

شمزا کی تصویروں میں قالین نما پیٹرنز اور کشیدہ کاری ٹائپ ماحول کی وجہ یہ ہے کہ ان کے آباؤ اجداد سبھی قالین بنانے والے تھے یا پھر ملٹری کی ایمبرائیڈری کے ٹھیکے انہیں ملتے تھے۔ اب بچپن سے جب چار چوفیرے یہی دیکھا ہوگا تو کہیں نہ کہیں اس کا عکس تو جھلکے گا۔ ایک دو تصویروں کا تو عنوان بھی انہوں نے جادوئی قالین رکھا تھا۔ باقی ان کی تصویروں کے اندر دکھائی دینے والی ہر چیز کی وجہ پاکستان ہے، لاہور ہے، اسلام ہے اور عربی ہے۔ وہ ماحول جس میں وہ ذہنی طور پر ہمیشہ رہا کرتے تھے۔

انور جمال شمزا کا فن پارہ

انور جمال شمزا کا فن پارہ

اصل میں جو زمانہ شمزا اور ان کے دوسرے ساتھیوں کو ملا وہ اس لحاظ سے بڑا زبردست تھا کہ سب کچھ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔ مطلب پوری جو پچھلی صدی تھی وہ ایک طرف رکھ لیں اور باقی انسانی تاریخ اٹھا کر ایک طرف کردیں، تو اندازہ ہوجائے گا کہ وہ جو کچھ نیا ہونے کے جتنے امکانات تھے ان کا جو بے دریغ استعمال پچھلی صدی میں ہوا ہے اس کے بعد اب، اس وقت، موجودہ لمحے تک سب کچھ پرانا لگتا ہے۔ اس دور میں کچھ نیا ہے ہی نہیں، یہاں تک کہ آپ نیٹ پر سرچ کرلیں، مائی بیڈ کے نام سے بھی ایک تصویر مل جائے گی۔

ٹریسی ایمین نامی خاتون کچھ بریک اپ وغیرہ کا شکار ہوئیں، عشق کے غم میں کھایا پیا بالکل نہیں، کلہم شراب پر گزارا کیا۔ 10،8 دن بعد ذرا ہوش آیا اور دیکھا تو انہیں اندازہ ہوا کہ استاد یہ میرا بیڈ اور یہ بکھری ہوئی چیزیں اور یہ سارا گند بلا، یہ بھی تو آرٹ ہے۔ انہوں نے اس کی نمائش لگا دی۔ ٹیٹ گیلری والوں نے باقاعدہ اسے قبولیت بخشی، ایک دو انعاموں کے لیے بھی نامینیشن ہوئی۔ جب بولنے والوں نے کہا کہ اس میں آرٹ شارٹ کہاں ہے بی بی یہ تو کوئی بھی کرسکتا ہے تو ٹریسی نے کہا، پہلے کسی نے اپنا پورا بیڈ قالین کے ٹکڑے سمیت اس طرح نمائش پ لگایا ہے؟ نہیں لگایا نا؟ تو بس میرا یہی آرٹ ہے۔

انور جمال شمزا کا فن پارہ

انور جمال شمزا کا فن پارہ

اب اصل چکر یہ تھا کہ پہلی عالمی جنگ نے ہر سمت میں افراتفری مچائی ہوئی تھی۔ پوری پوری قوموں کو جھنجوڑ دیا تھا۔ نئے خیال آ رہے تھے، پرانے ریجیکٹ ہو رہے تھے۔ ایک بھاگم دوڑی تھی اسی میں کمیونزم بھی پورا زور پکڑ چکا تھا۔ کوئی بھی چیز دیسی لحاظ سے زور تب پکڑتی ہے جب وہ برِصغیر کے فنکاروں میں لانچ ہوتی ہے۔ تو 1936ء میں جب انجمن ترقی پسند مصنفین بنی تو وہ ٹھیک معنوں میں انگڑائی کا سال تھا۔ اس کے بعد پھر وہ انجمنیں بنیں ہیں، وہ تحریکیں چلیں ہیں، وہ پارٹی بازیاں ہوئی ہیں کہ دیکھنے والا سین تھا۔ خیر، تو اسی کے چند برس بعد کلکتہ، کشمیر، بمبئی اور ہر بڑے شہر کے آرٹسٹ، شاعر، ادیب لوگ اپنے اپنے شہر کا الگ ترقی پسند گروپ بنا چکے تھے۔

پاکستان بنا تو لاہور کے ماڈرن پینٹنگ والوں نے اپنا گروپ لاہور آرٹ سرکل کے نام سے بنا لیا۔ پنجاب کی جدید مصوری ویسے تو امرتا شیر گل کے نام سے شروع ہوتی ہے، تُو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ؟ لیکن، وہ کہانی پھر سہی! ابھی لاہور آرٹ سرکل اور شمزا پر غور کرتے ہیں۔ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ عبدالرحمن چغتائی صاحب بھرپور طریقے سے آرٹ سین پر چھائے ہوئے تھے۔ ان کی مصوری روایتی قدیم ٹچ لیے ہوئے تھی اور لوگوں کو اٹریکٹ بھی کرتی تھی۔ تو یہ لاہور سرکل حقیقت میں ان کا زور توڑنے کی ایک آف لائن کوشش بھی کہی جاسکتی ہے۔ وقت گواہ ہے کہ یہ کوشش بہت حد تک کامیاب بھی ہوئی۔ اگر لاہور آرٹ سرکل نہ بنتا اور یہ سارے مصور الگ الگ زور لگا رہے ہوتے اور روایت پسندی اور عبدالرحمن چغتائی ہائپ کی شدت کم کرنا شاید ناممکن ہوتا۔

جنرل ایوب خان انور جمال شمزا کا فن پارہ دیکھ رہے ہیں

انور جلال شمزا کا فن پارہ

ایفرا شمزا، ان کی نواسی لکھتی ہیں ’وہ میرے پیدا ہونے سے پہلے ہی مَر چکے تھے لیکن ان کے آرٹ کی وجہ سے میرا تعلق میرے نانا کے ساتھ ہمیشہ جڑا رہا۔ میں بڑی ہوئی تو میں نے ان کی تصویریں اپنے آس پاس دیکھیں، ان کا ٹھیک ٹھاک اثر لیا۔ جو چیز مجھے بہت زیادہ متاثر کرتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے کس طرح ویسٹرن مصوروں سے ہٹ کر اپنا ایک الگ اسٹائل بنایا جو مشرق اور مغرب کا ملاپ تھا۔

’انور جلال شمزا شملہ، کشمیر (پنجابی-کشمیری بٹ فیملی) میں پیدا ہوئے۔ میو اسکول آف آرٹ (این سی اے) میں تعلیم حاصل کی۔ ان کی شاعرانہ تاثر والی تصویریں پاکستان میں بہت مشہور ہوئیں۔ 1952ء میں انہوں نے دوسرے دوستوں کے ساتھ مل کر لاہور آرٹ سرکل قائم کیا۔ یہ ایک جیسے دماغوں کا وہ گروپ تھا جو مصوری میں جدید پن لانا چاہتا تھا۔ احمد پرویز اور علی امام بھی اس گروپ میں شامل تھے۔

شمزا شملہ، کشمیر (پنجابی-کشمیری بٹ فیملی) میں پیدا ہوئے

شمزا نے میو اسکول آف آرٹ (این سی اے) میں تعلیم حاصل کی

’وہ 1956ء میں جب پڑھنے کے لیے لندن گئے تو انہیں ایک دم اندازہ ہوا کہ جو کچھ پاکستان میں کامیاب تھا، مشہور تھا، اسے لندن میں کوئی کسی کھاتے میں نہیں ڈالتا۔ (اس دور کے ایک انٹرویو میں کہنے لگے، ’لندن آنے سے پہلے میں ایک خوش باش انسان تھا، ایک مانا ہوا مصور جس کی تصویریں قومی سطح پر کلیکشنز میں شامل ہوتی تھیں اور آرٹ کے شوقین جسے خریدنا پسند کرتے تھے۔ میرا کام دنیا کے بے شمار ملکوں تک پہنچ چکا تھا۔‘) ایک پروفیسر کے لیکچر کا تو ان پر اتنا اثر ہوا کہ اپنے سارے کام پر، ساری مہارت پر تین حرف بھیج کے پال کلی، کینڈنسکی اور مانڈرین کی بنائی تصویروں پر غور کرنا شروع کردیا۔ وہ پروفیسر یہ کہتا تھا کہ اسلامی آرٹ محض ایک فنکشنل چیز ہے (مطلب خطاطی یا کوئی واقعہ یا کوئی منظر اگر مصور کیا جاتا ہے تو وہ مکمل طور پر واقعے کے مطابق ہوتا ہے، اس میں تجریدیت یا کوئی انوکھا خیال یا کوئی موڈ نہیں ہوتا)۔

’پھر انہوں نے ان آرٹسٹس کے اسٹائل کو اسلامی خطاطی اور طرزِ تعمیر کے ساتھ ملا جلا کر اپنا ایک الگ اسٹائل بنا لیا۔ (ویسے کینڈنسکی سے احمد پرویز نے زیادہ اثر لیا تھا، انہوں نے پکاسو کو ساتھ مکس کردیا تھا۔ انور جلال شمزا نے پال کلی اور مانڈرین کو ملا کر اپنے حروف تہجی ان میں گھول دیے ہیں، پیچھے وہی قالین بافی اور لاہوری اسلامی تہذیب ہے)۔ جیسا کہ اپنی تصویروں کے بارے میں وہ خود کہتے تھے کہ ایک دائرہ، ایک مربع، ایک معمہ، ایک زندگی اسے حل کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ لندن میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے کامن ویلتھ والوں کے ساتھ مل کر نمائشیں بھی منعقد کیں۔ ایف این سوزا اور اویناش چندرا عموماً ان کے ساتھ ہوتے تھے۔

’میرے نانا (شمزا) نے میری ٹیلر سے شادی کی۔ وہ ان کی ہم جماعت تھیں۔ 1858ء میں ان کے یہاں پہلی اولاد ہوئی، تصویر، وہ میری ماں تھیں۔ بعد میں وہ اسٹینفورڈ کالج میں پڑھاتے رہے اور لندن کے مرکزی آرٹ سین سے غائب رہے لیکن مرتے دم تک وہ اسی کوشش میں تھے کہ اپنا بالکل ایک الگ اسٹائل بنا لیں، ایسا اسٹائل جس کی نقل کوئی دوسرا نہ کرسکے (اور بے شک وہ اس میں کامیاب رہے)۔ میرے نانا اپنی تصویریں ہیورڈ یا ٹیٹ جیسی مشہور ترین گیلریوں میں لٹکتی ہوئی نہیں دیکھ سکے۔ پچھلے 10 برس میں کچھ ایسی ہوا چلی ہے کہ ان سب آرٹسٹوں میں دلچسپی زیادہ پائی جانے لگی ہے۔ لندن کے آرٹ سین میں بھی ایک عرصے تک پرانی حکمرانی اور بادشاہت (نوآبادیاتی نظام! باوجود لاکھ نہ چاہنے کے، یہ لفظ بہرحال استعمال کرنا ہی پڑگیا) کی بُو پائی جاتی تھی، ایسا لگتا ہے کہ وہ رویے اب کچھ چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے میرے نانا اگر یہ سب دیکھتے تو انہیں بہت حیرت ہوتی۔ وہ دُور تک دیکھ لینے والے آدمی تھے۔ نئے آرٹسٹوں کے لیے انہوں نے راستہ ہموار کیا، میں بھی انہی سب فنکاروں میں شامل ہوں۔‘

انور جلال شمزا کا ایک فن پارہ

انور جلال شمزا کا فن پارہ

انور جلال شمزا کا فن پارہ

ایفرا شمزا کا بیان ادھر ختم ہوتا ہے۔ بیچ میں جو بریکٹوں کے اندر گپ شپ ہے وہ فقیر کا چلایا ہوا چمچہ ہے۔ ایفرا شمزا نیو میڈیا آرٹسٹ کہلاتی ہیں۔ وہ روشنیوں، بلبوں، الیکٹرانک سرکٹوں، چپ بورڈز اور ایسی بہت سی چیزوں کے ساتھ جلتی بجھتی روشنیوں والا آرٹ بناتی ہیں۔ ٹھیک ٹھاک انسپریشن اپنے نانا سے ہی لیتی ہیں، ان کا آرٹ ورک مزے کی چیز ہے لیکن ابھی دل کا زور نہیں کہ اسے بھی سمجھا جائے۔

انور جلال شمزا کے بارے میں کہیں بھی کوئی بھی آرٹیکل پڑھیں تو اس میں ایک بات بار بار لکھی نظر آتی ہے کہ لندن والوں نے جان بوجھ کے ان کو اور بہت سے مشرقی آرٹسٹوں کو ریجیکٹ کیا، جن علاقوں کے وہ انگریز حاکم رہے تھے، وہاں کے آرٹسٹس کو اوپر بٹھانا انہیں پسند نہیں تھا، وغیرہ وغیرہ۔ ایسا کہنا شاید اتنا درست نہیں ہے۔

احمد پرویز نے جب مغرب میں شہرت حاصل کی، تب بھی وہی زمانہ تھا، صادقین نے بھی اسی عرصے کے آس پاس یورپ کی آرٹ گیلریوں میں نام کمایا، گل جی کے ہٹ ہونے کا بھی وہی ٹائم تھا اور ظہور الاخلاق کی پینٹنگز بھی اسی دور (1970ء) میں پیرس کی گیلریوں میں دیکھی جاسکتی تھیں۔ شمزا کی تصویریں دیکھ کے ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے پال کلی اور ماتیس کا اثر ضرورت سے زیادہ لے لیا تھا (اصل میں ماتیس خود عربی حروف سے متاثر تھا)۔ آپ بریلی میں بیچنے کے لیے بانس نہیں لے کر جاسکتے، کچھ نیا کاروبار کرنا پڑتا ہے، اگرچہ بہت کچھ نیا تھا لیکن وہ نیا پن اس وقت ٹھیک سے گورے ڈھونڈ نہیں پائے اور یا پھر انور جلال شمزا اپنی لابنگ اور پی آر وہاں مضبوط نہیں بنا سکے۔ نتیجتاً آرٹسٹ غریب اپنی ذات میں سمٹتا چلا گیا۔

انور جمال شمزا کی اہلیہ میری اپنی بیٹیوں حنا اور تصویر شمزا کے ہمراہ

انور جلال کا ایک فن پارہ

پھر شاید انٹرنیٹ عام ہونے کے بعد ریسورسز بڑھے، ان کی مصوری پر کچھ پروفیسرز نے کام کیا، کچھ گیلریوں نے زور لگایا تو وہ اپنے ٹھیک مقام تک بہرحال پہنچ گئی۔ اب انور جلال شمزا پاکستان سے باہر بھی صاحبِ طرزِ مصور جانے جاتے ہیں۔ باقی اگر شمزا کی کری ایٹوٹی دیکھنی ہے تو صرف ان کے نام پر غور کرلیں۔ لفظ شمزا نہ کوئی ذات ہے، نہ کوئی نام تھا بس ایک رینڈم لفظ تھا۔ انہیں اس کا ساؤنڈ پسند آیا اور انہوں نے اسے بطور تخلص نام کے ساتھ لگا لیا۔

شمزا اپنی تصویریں سمجھانے کے قائل نہیں تھے۔ وہ اس مکتب فکر سے تھے جن کے مطابق دیکھنے والا خود اتنے علم کا حامل ہونا چاہیے کہ اسے ایسبسٹریکٹ تصویریں سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ ایک مرتبہ کافی ہاؤس میں شمزا چند دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ نئی تصویر بھی ان کو دکھانے کے لیے ساتھ آئے تھے۔ ڈسپلے شروع ہوا، یار لوگوں نے کوئی خاص اچھے کمنٹس نہیں دیے۔ کسی نے غلطی سے کہہ دیا کہ سمجھ نہیں آئی۔ شمزا نے ڈپٹ کے بیرے کو آواز دی، وہ ترنت آگیا، شمزا نے اس سے پوچھا کہ ہاں بھئی تم دیکھو، تمہیں یہ تصویر سمجھ میں آتی ہے۔ کچھ دیر دیکھتا رہا پھر کہنے لگا جی صاحب آتی ہے۔ اب چوڑے ہو کر انہوں نے باقی سب کو جتایا کہ دیکھو تم لوگ نہیں سمجھتے اور ایک بیرا کیسے فوراً سمجھ گیا۔ بیرے بولا، سمجھنا کیا ہے صاحب، یہ تو آپ کے مکان کا نقشہ ہے۔

انور جمال شمزا کا فن پارہ

شمزا کی لگن کمال تھی۔ جب انہوں نے ایک مرتبہ فیصلہ کرلیا کہ مغرب ان کے مقام کو مانے یا نہ مانے، انہوں نے کام کرتے جانا ہے تو وہ رُکے نہیں۔ اردو کا لفظ ’میم‘ لکھنے پر انہوں نے کتنی ہی تصویریں بنا دیں۔ اسے سیریز کہا جاتا ہے۔ انور جلال شمزا کی بعض سیریز ایسی بھی تھیں کہ ایک ہی تھیم کے پیچھے 50 تصویریں بنا ڈالیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ جب تک امکانات ختم نہیں ہوتے تھے شمزا کی بس نہیں ہوتی تھی۔ بعض اوقات لوگ پوچھتے تھے، طنز کرتے تھے کہ تم ایک دائرے اور ایک چوکور کے ساتھ کب تک کام کرو گے؟ ان کا جواب ہمیشہ وہی ہوتا تھا، ایک دائرہ، ایک مربع، ایک معمہ، ایک زندگی اسے حل کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے، شمزا کی صرف تکنیک ویسٹرن ایبسٹریکٹ تھی، مال مواد تو سارا اپنا دیسی تھا۔ مجھے ذاتی طور پر تو یہاں تک لگتا ہے کہ شمزا جنتریوں اور تعویزوں سے بھی کافی انسپائرڈ تھے۔

انور جمال شمزا س مکتب فکر سے تھے جن کے مطابق دیکھنے والا خود اتنے علم کا حامل ہونا چاہیے کہ اسے ایسبسٹریکٹ تصویریں سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے

شمزا کا نام آج تک زندہ رکھنے میں ان کی بیوی کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ اگر وہ نہ ہوتیں تو شمزا منظر سے ہی غائب ہوجاتے، نہیں، لیکن اتنا ضرور ہوتا کہ شمزا کا بہت سا کام ضائع ہوجاتا۔ آرٹ ریسرچرز کو ان کے بارے میں جاننے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی۔ جیسے مثال کے طور پر ہم ان کی روٹس سیریز کی بات کرتے ہیں۔ یہ سب وہ تصویریں تھیں جو شمزا اپنے ساتھ نمائش کے لیے پاکستان لانا چاہتے تھے۔ ان کا سائز بھی شاید اسی لیے انہوں نے چھوٹا رکھا تھا تاکہ ہینڈلنگ میں آسانی رہے۔ اب مَیری (مسز شمزا) چونکہ خود مصور تھیں اس لیے انہیں آئیڈیا ہوگا کہ ان تصویروں کی اہمیت کیا ہے۔ یہ سب کام پردیس میں رہتے شمزا کے دل سے نکلی ہوئی ایک ایسی طویل چیخ تھی جس کی باز گشت آج بھی وہ تصویریں دیکھنے پر محسوس کی جا سکتی ہے۔

دو ڈھائی سال لگاتار کام کرنے کے بعد ڈیڑھ سو سے بھی زیادہ یہ تصویریں صرف یہ دکھاتی ہیں کہ انگلینڈ میں رہتے ہوئے بھی شمزا کس قدر پاکستان کی یاد میں مبتلا رہتے ہوں گے۔ ان تصویروں کا بیسک تھیم یہ ہے کہ جڑیں کسی بھی پودے کے پھلنے پھولنے کے لیے ضروری ہیں۔ جڑیں کاٹ دیں تو لمبا چوڑا چھتنار درخت سوکھ جائے گا، اکھاڑ کر کسی اور جگہ لگانے کی کوشش کریں تو بھی پودا مرجائے گا، کسی اور ملک کا فینسی ترین پودا یہاں لا کے لگائیں گے تو وہ بھی دو دن نہیں نکالے گا۔ مطلب جڑ اپنی مٹی میں ہے تو پودا زندہ ہے ورنہ خلاص!

انور جمال شمزا کا فن پارہ

انور جمال شمزا کا فن پارہ

اب جو شمزا یہ سوچتے ہوں گے کہ یار میں ہوں کون، میری جڑیں کہاں ہیں، میں کہاں تھا، میں کہاں ہوں، میں کہاں ہوں گا، تو انہیں کیا جواب ملتا ہوگا؟ سیریز کے نام ’روٹس‘ میں خود واضح طور پر یہ اشارہ موجود ہے کہ شمزا کیا دکھانا چاہتے تھے۔ اس سیریز کی زیادہ تر پینٹنگز 2 حصوں میں ہیں۔ نچلے حصے میں کسی آیت کی خطاطی جڑوں کی صورت کی گئی ہے۔ اوپر والے حصے میں ان جڑوں سے اگتے پھول بوٹے دکھائی دیتے ہیں جو خود بھی خطاطی ہی کی ایک صورت ہیں۔ کہیں الیکٹرونک کرنٹ کا بہاؤ یہ سب کچھ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ میچور رنگوں اور فضا کی یہ تصویریں پہلی نظر میں ہی شمزا کے الگ ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں، باقی سب کچھ غور سے دیکھنے پر کھلتا نظر آتا ہے۔

تو مَیری شمزا جو تھیں، وہ اپنے میاں کی محنت کا بھرم رکھتے ہوئے ذاتی اخراجات پر یہاں آئیں، جہاں کام کرتی تھیں وہاں سے طویل رخصت لی اور اِدھر پاکستان میں ان کے سارے کام کی بھرپور نمائش کرائی۔ ساری عمر لاتعداد نمائشیں کرنے والے شمزا نے جس نمائش کے لیے سب سے زیادہ محنت کی، وہ خود اس میں موجود نہیں تھے۔ اور ہمیں اس چیز کا احساس دلانے والی بہرحال مَیری شمزا تھیں۔

یہ نمائش 86ء-1985ء میں ہوئی۔ پھر ابھی 3، 4 برس پہلے شمزا پر تحقیق کرنے والے ایک نوجوان ریسرچر کا بیان تھا کہ جب انہوں نے مَیری شمزا سے اس مقصد کے لیے رابطہ کیا تو انہیں یہ دیکھ کر بے انتہا حیرت ہوئی کہ جنوری 1985ء میں انتقال کر جانے والے شمزا کی ہر چیز آج تک ویسے ہی انٹیکٹ ہے۔ ان کی ذاتی کتابیں، نوٹس، تصویریں، ڈائریاں، رف کاغذ، ایک ایک چیز سلیقے سے محفوظ ہے۔ تو یہ بڑی بات ہے بھائی، ایسی زوجہ ہر قابل آدمی کا مقدر ہونا چائیے۔

انور جلال شمزا کا فن پارہ

پہلی عالمی جنگ کے بعد مصوری کی اہم اور مشہور ہونے والی جیومیٹریکل شکلوں پر مشتمل پینٹنگز اور عربی خطاطی کو ہم آہنگ کر دینے والے مصور، انور جلال شمزا 1928ء میں پیدا ہوئے اور 1985ء میں وفات پاگئے۔ صرف 57 سال کی عمر؟ بڑی ہوتی ہے استاد، اگر اپنے دیس سے باہر ہو!

الطاف گوہر کی یہ نظم شمزا کی تصویروں کے بیگ گراؤنڈ میں چلائیں اور موج کریں؛

گھر واپس جب آؤ گے تم

کون تمہیں پہچانے گا

کون کہے گا، تم بِن ساجن

یہ نگری سُنسان

بِن دستک دروازہ گُم سُم، بِن آہٹ دہلیز

سُونے چاند کو تکتے تکتے راہیں پڑ گئی ماند

کون کہے گا، تم بِن ساجن

یہ نگری سُنسان

کون کہے گا تم بِن ساجن کیسے کٹے دن رات

ساون کے سو رنگ گُھلے اور ڈُوب گئی برسات

کون کہے گا، تم بِن ساجن

یہ نگری سُنسان

پَل جیسے پتّھر بن جائیں، گھڑیاں جیسے ناگ

دن نکلے تو شام نہ آئے، آئے تو کُہرام

کون کہے گا، تم بِن ساجن

یہ نگری سُنسان

گھر واپس جب آؤ گے تم

کیا دیکھو، کیا پاؤ گے

یار نگار، وہ سنگی ساتھی

مَدھ بھریاں تھیں، اکھیاں جن کی، باتیں پُھلجڑیاں

بُجھ گئے سارے لوگ وہ پیارے، رہ گئی کچھ لڑیاں

تم بن ساجن یہ نگری سُنسان

دُھول ببُول بگُولے دیکھو

ایک گریزاں موج کی خاطر

صحرا صحرا پِھرتے ہیں

تم بھی پِھرو درویش صفت اب

رقصاں رقصاں، حیراں حیراں

لوٹ کے اب کیا آؤ گے، اور کیا پاؤ گے

کون کہے گا، تم بِن ساجن

یہ نگری سُنسان


حسنین جمال ادب، مصوری، رقص، باغبانی، فوٹوگرافی، موسیقی اور انٹیکس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایک قومی اخبار کے مستقل کالم نویس ہیں۔ رسائل کے لیے لکھتے ہیں۔ بلاگنگ کی دنیا میں پچھلے چار پانچ سال سے موجود ہیں۔ فیس بک پر آپ انہیں یہاں فالو کرسکتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

Read Comments