اس علاقے میں ٹریفک انتظامیہ اور سرکولیشن پلان کی اشد ضرورت ہے تاکہ لوکل ٹریفک، آہستہ و تیز رفتار ٹریفک اور پیدل افراد و گاڑی سواروں کی آمد و رفت کے لیے علیحدہ علیحدہ راستے بنائے جاسکیں۔ یہ اقدام ٹریفک مسائل کا پائیدار حل ثابت ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ کار پارکنگ کی جگہ بھی زیادہ حاصل ہوسکے گی۔
لارڈ صاحبان حکومتِ سندھ اور کراچی میٹروپولیٹن کووپریشن (کے ایم سی) کو 10 ہزار بڑی بسیں سڑکوں پر اتارنے کے ساتھ ساتھ ان ڈرائیوروں، کنڈیکٹروں اور ٹریفک مینیجرز کے لیے مناسب تربیت گاہ بنانے کا حکم دینے پر بھی غور کرسکتے ہیں جو اکیلے کراچی کے ٹرانسپورٹ نظام چلائیں۔ یہ نہایت ضروری ہے کیونکہ بی آر ٹی ماس ٹرانزٹ منصوبہ تو روزانہ کی بنیاد پر کراچی کی 5 فیصد سے زائد آبادی کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوگا۔
ایک اور مسئلہ جس نے کراچی سرکولر ریلوے کی زمین پر ’قانونی طور پر‘ قیام پذیر 4 لاکھ سے زائد (زیادہ تر غریب) افراد کے لیے انتہائی مشکل کھڑی کی ہوئی ہے وہ ہے اپنے مستقبل کو لے کر ان کی لاعلمی یا پھر ریلوے کو کتنی زمین چاہیے اس حوالے سے بے خبری۔ ریلوے کو مطلوبہ زمین کے حوالے سے ٹھوس فیصلے لینا نہایت ضروری ہیں تاکہ لوگوں کو اس خوفزدہ صورتحال سے نکالا جاسکے۔
ریلوے کی وہ زمین جہاں بے ضابطہ آبادیوں میں تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں اور جو آبادی کے تقریباً 25 فیصد حصے کے لیے روزگار کا ذریعہ بنی ہوئی ہے، اس کو گرانے کا عمل روک دینا چاہیے اور اسے بڑے (rehabilitation) آباد کاری پلان کا حصہ بنا دینا چاہیے۔ متاثرین کو ان کی موجودہ رہائشی علاقوں سے نزدیک ہی کسی دوسری جگہ پر آباد کیا جائے اور اسے ایک بڑے تجارتی منصوبوں کا حصہ بنایا جاسکتا ہے، یوں حکومت کے لیے اچھا خاصا ریونیو بھی پیدا ہوسکے گا ساتھ ہی ساتھ متاثرین کے لیے رہائش بھی فراہم ہوسکے گی۔
کراچی بحالی پلان وہ واحد راستہ ہے جسے شہر کی اس وقتی پیداوار کو مستقبل کی خاطر لائے گئے موجودہ پلان سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے۔ یہ کام مشکل ٹائم فریمز یا مصالحتی افراد پر مشتمل کمیٹیوں کو تشکیل دینے یا پھر غیر تجربہ کار مشیروں کی تعیناتی سے انجام نہیں دیا جاسکتا۔ بلکہ اس کام کے لیے 5 سے 10 سال کے ٹائم فریمز اور منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے لیے بااثر ادارے درکار ہیں۔ یہ ادارے وجود نہیں رکھتے لیکن انہیں وجود میں لانے اور انہیں تربیت دینے کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف چھوٹے چھوٹے منصوبوں سے شہر کو تھوڑا بہت وقتی ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ اگر کراچی کو منجھدار سے نکالنا ہے اور قائم و دائم رکھنا ہے تو غصے کو احترام اور فہم میں بدلنا ہوگا۔
یہ مضمون 31 جنوری 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔