ڈاکٹر رتھ فاؤ نے 1993 میں خیبر پختونخوا (اُس وقت کے این ڈبلیو ایف پی) میں امراض چشم کے علاج کے لیے سروس کا آغاز کیا۔
اگلے ہی سال 1994 میں انہیں حکومت آسٹریا کی جانب سے بھی ایوارڈ دیا گیا۔
پاکستان اور ڈاکٹر رتھ فاؤ کے لیے 1996 کا سال سے سب سے اہم رہا، کیوں کہ اس سال عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو ’جذام فری‘ ملک قرار دیا۔
پاکستان کو جذام فری ملک قرار دیے جانے کے بعد بھی ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات نہیں رکیں اور انہوں نے اگلے ہی سال 1997 میں پاکستان بھر سے لپروسی کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے کام کا آغاز کیا۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کو ان کی خدمات کے عوض 2002 میں فلپائن کی حکومت کی جانب سے بھی ایوارڈ سے نوازا گیا اور 2014 میں انہیں جرمنی کی جانب سے ایک اور ایوارڈ بھی دیا گیا۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ نے زندگی کے آخری ایام تک انسانی خدمت اور کام کو ترجیح دی جبکہ دنیا سے کوچ کرنے سے ایک سال قبل 2016 میں انہوں نے بچوں کی پیدائش، ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے منفرد پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
پاکستان کے لیے سال 2017 برا ثابت ہوا اور 10 اگست کو ڈاکٹر رتھ فاؤ طویل علالت کے بعد انتقال کر گئیں۔
اپنی محسن کی موت پر پوری قوم افسردہ دکھائی دی جبکہ حکومت نے انہیں مکمل سرکاری اعزازات کے ساتھ سپرد خاک کیا۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کی آخری رسومات کراچی کے تاریخی ’سینٹ پیٹرک چرچ‘ میں ادا کی گئیں، جس میں اعلیٰ سرکاری شخصیات سے سمیت عسکری قیادت نے بھی شرکت کی، جب کہ عوام کی کثیر تعداد نے بھی اپنی محسن کی آخری رسومات میں شرکت کی۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کو کراچی کے تاریخی ’گورا قبرستان‘ میں سپرد خاک کیا گیا۔
اگرچہ اس قبرستان میں سابق وفاقی وزیر جاوید مائیکل سمیت دیگر اعلیٰ شخصیات سپرد خاک ہیں، تاہم قبرستان کی انتظامیہ ڈاکٹر رتھ فاؤ کی تدفین کو اپنا اعزاز سمجھتی ہے۔
گورا قبرستان میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کی قبر سادہ طریقے سے بنائی گئی ہے، تاہم اس قبر کو پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل قبر کا اعزاز حاصل ہے۔
میری ایڈیلیڈ سینٹر نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر رتھ فاؤ کی قبر کے ماربل کے اوپر کیو آر کوڈ کنندا کیا ہے، جسے کسی بھی اسمارٹ فون پر اسکین کرنے سے موبائل صارف ڈاکٹر رتھ فاؤ کی زندگی اور خدمات سے متعلق بنائے گئے خصوصی گوگل دستاویزات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
علاوہ ازیں اس کیو آر کوڈ کی تصویر کو اسکین کرکے بھی ڈاکٹر رتھ فاؤ سے متعلق دستاویزات تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔