افسانہ: ایک الجھی ہوئی کہانی

’لو آج میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔ یہ کہانی 100 سال پرانی ہے‘
’100 سال؟‘
’ہاں تقریباً 100 سال‘
’نہیں بھئی ہم نہیں سنتے اتنی پرانی کہانی۔ دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اور تم ہمیں 100 سال پرانی کہانیاں سنا رہے ہو‘
’نہیں تم ہمیں کوئی نئی کہانی سناؤ بالکل نئی بلکہ آج کی کہانی سناو‘
’آج کی کہانی؟‘
’ہاں آج کی کہانی۔ ہمیں کوئی ایسی کہانی سناؤ کہ کچھ وقت گزرے۔ اس ہسپتال میں تو لگتا ہے جیسے وقت ٹھہر گیا ہے، سو کوئی قصہ سناؤ دوست لیکن آج کا قصہ‘
’آج تو کوئی خاص بات نہیں ہوئی، ہاں بس ایک فون آیا تھا کہ شبیر نے اپنی بیوی سلمٰی کو طلاق دے دی ہے‘
’اوہ اچھا۔ چلو تو تم ہمیں اسی شبیر کی کہانی سناؤ‘
’وہ میرا بچپن کا دوست ہے، ہم ایک ہی ساتھ پڑھتے اور کھیلتے رہے ہیں، اس کی کوئی خاص کہانی نہیں ہے، بس یہ کہ جب ہم میٹرک میں تھے تو اسے سلمٰی سے محبت ہوگئی اور ہم دونوں گاؤں کے راستوں پر سلمٰی کی ایک جھلک دیکھنے کی خاطر گھنٹوں انتظار کرتے تھے۔ تم اس قصے کو چھوڑو میں تمہیں 100 سال پہلے کی کہانی سناتا ہوں اور تم دیکھو گے کہ کس طرح ایک دولت مند ایک غریب کی عزتِ نفس کو مجروح کرتا ہے، یہ تب کی بات ہے جب ہمارے گاؤں میں دریائے سندھ پر پُل بن رہا تھا‘
’نہیں نہیں رکو بھئی۔ ہمیں یہ بتاؤ شبیر کی کہانی میں آگے کیا ہوا؟‘
’قصہ مختصر یہ کہ شبیر چونکہ گاؤں کے ایک کھاتے پیتے زمیندار کا بیٹا تھا سو جب اس کے گھر والے اس کا رشتہ لے کر سلمٰی کے گھر گئے تو سلمٰی کے گھر والے انکار نہیں کرسکے اور انہوں نے سلمٰی سے پوچھے بغیر شادی کے لیے ہاں کردی۔ ہاں تو میں بتارہا تھا کہ جب ہمارے گاوں میں پُل بن رہا تھا تو بہت سے آفیسرز دُور دُور سے ہمارے گاوں آئے تھے جب کہ مزدوروں میں زیادہ تر لوگ مقامی تھے۔اور ان مزدوروں میں کرمو بھی شامل تھا جو گاؤں کا سب سے غریب آدمی تھا۔‘
’لیکن جب شبیر کو سلمٰی سے محبت تھی تو طلاق کیسے ہوگئی؟ بات کچھ سمجھ نہیں آرہی‘
’لیکن ہم تو شبیر اور سلمٰی کے بارے پوچھ رہے ہیں‘
’ارے بھئی اب چھوڑ بھی دو سلمٰی اور شبیر کو۔‘
’نہیں، ہمیں تو ان کے بارے میں ہی جاننا ہے۔‘
’ہوا کچھ یوں کہ 6 ماہ بعد سلمٰی نے ایک روز شبیر سے کہا کہ اسے شبیر کے دوست یعنی مجھ سے محبت ہے۔‘
’اوہ یعنی تم بھی اس کہانی کا حصہ ہو؟‘
’اوہ ہو یہ تو بہت دُکھی کہانی ہے، لیکن وہ شبیر کا کیا ہوا؟‘
اس نے کہا ’میں تو تمہیں اپنا جگری دوست سمجھتا تھا، مجھے کیا معلوم تھا تم ایسے نکلو گے‘
’کیا ہوا دوست مجھے بات کچھ سمجھ نہیں‘ میں نے پوچھا۔
’اب اتنے بھی بھولے نہ بنو، مجھے سلمٰی نے سب کچھ بتادیا ہے۔‘
’تو کیا پہلی ہی ملاقات میں سب کچھ بتادیتا‘
’لیکن پھر شبیر نے سلمٰی کو آج کیوں طلاق دی؟‘
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔