آخری بات یہ کہ چینی کمپنیوں کی حالیہ سرمایہ کاریوں، گزشتہ دہائی میں انکیوبیٹرز (نیا کاروبار شروع کرنے والوں یا کاروبار کا آغاز کرنے والوں کو خدمات فراہم کرنے والی کمپنی)، ایکسی لیٹرز، اسٹارٹ اپ مقابلوں اور کانفرنسوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے علاوہ چند نامور وی سی فرمز کے آنے کے باوجود پاکستان کی جانب سے بنایا گیا سرمایہ خطے میں موجود دیگر کھلاڑیوں کی وجہ سے چھوٹا پڑ گیا ہے اور خارجی راستوں کو اہمیت نہیں دے رہے؛ پاکستان کے ٹیکالوجی سے متعلق اپنا کاروبار شروع کرنے والوں نے انڈونیشیا جیسے ملکوں کی نسبت 2018ء میں 3 کروڑ ڈالر سے کم سرمایہ جوڑا جبکہ انڈونیشیا (جہاں اگر ہم جادوئی گھوڑوں کو نہ بھی گنیں تو بھی) 2018ء میں 2 ارب 70 کروڑ 40 لاکھ سے زائد سرمایہ بڑھایا۔
ان تمام چینلجز کے باجود سینیٹ کو بتایا گیا ہے کہ آئی ٹی بجٹ میں 53 فیصد کی کٹوتی کی جائے گی، جو پہلے سے غیر مسابقتی صنعت کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں۔
ہمارے کاروباری ماحول میں بنیادی خرابیوں کو مدِنظر رکھیں تو پاکستان کو ایشیا کی اگلی سیلیکون ویلی بنتا دیکھنے کی آرزو کراچی کی سڑکوں پر حقیقی جادوئی گھوڑے کو دوڑتے دیکھنے کی تمنا جیسی ہی محسوس ہوتی ہے۔
آذربائجان سے لے کر زمبیا تک، تقریباً ہر ملک اپنے اپنے خطے کی اگلی سیلیکون ویلی بنانے کی خواہش رکھتا ہے، پھر چاہے ان کے لیے یہ صنعت کتنی نوزائیدہ ہی کیوں نہ ہو۔
قومی غیر معمولیت (national exceptionalism) کا یہ احساس ہمارے لیے نیا نہیں۔ لیکن اگر ہم ایسا کاروباری ماحول بنانا چاہتے ہیں جو ہمیں عالمی حریفوں کے مدمقابل بنائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے کمزور پہلوؤں کو تسلیم کریں اور ایسے قوانین، نظام اور کلچر پیدا کریں جو پاکستان میں ٹیکنالوجی سے متعلق کاروبار شروع کرنے والوں کے لیے ماحول کو بہتری کی جانب لے جائے تاکہ پاکستان کے جادوئی گھوڑے سامنے آسکیں۔
یہ مضمون 23 فروری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔