طالبان اور لارڈ رسل
ملالہ کے اقوام متحدہ سے خطاب کو ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا کہ تحریک طالبان کے ایک صاحب نے ان کو ایک خط لکھ ڈالا۔ اس خط کو مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔
اس خط کے مندرجات پاکستانی اخبارات کے قارئین کے لیے نئے نہیں ہیں اور اس قسم کی فضولیات ہمیں اکثر اوریا مقبول جان یا انصار عباسی کی طرز کے افراد کے مضامین میں دیکھنے کو ملتی ہیں اور ٹی وی پر یہ افکار پھیلانے کا ٹھیکہ زید حامد اور اس قماش کے لوگوں نے اٹھا رکھا ہے۔
خط میں تعلیمی اداروں پر حملوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ البتہ نہیں بتایا گیا کہ آخر لڑکیوں کے سکول ہی خاص طور پر کیوں نشانہ بنائے جاتے ہیں؟ اور اگر ملالہ پر حملے کی وجہ اسکا تعلیم کی حمایت میں بات کرنا نہیں تھا تو کیا ایک پندرہ سالہ نہتی لڑکی اتنی طاقت ور ہو گئی تھی کہ طالبان کی اس سے ذاتی دشمنی ہو گئی تھی؟
انگریزی تعلیم کو تمام برائیوں کا جڑ بھی ان صاحب نے کوئی پہلی دفعہ قرار نہیں دیا۔ یہ الزام بھی اب بہت قدیم ہو چکا کہ انگریزی تعلیم یہودی بنا دیتی ہے اور یہ کہ سر سید احمد خان فری میسن تھے۔ لارڈ میکالے پر تنقید ہر دوسرے روز ہوتی ہے (حالانکہ میکالے کی ایسی کسی تقریر کا ریکارڈ تاریخ میں موجود ہی نہیں)۔
پولیو کے قطروں کی مخالفت، اقوام متحدہ کی بے بسی، آبادی میں کمی کی مخالفت جیسے موضوعات تو ہم مساجد کے خطبوں میں بارہا سن چکے ہیں۔ ڈرون کا ذکر آتا ہے، ریمنڈ ڈیوس کی بات ہوتی ہے، عافیہ صدیقی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ یہ سب باتیں ہماری غیرت بریگیڈ کئی سال سے کرنے میں مصروف ہے۔ برٹرینڈ رسل کا تڑکا البتہ ایک نئی چیز ہے اور ثابت کرتا ہے کہ تعلیم کے مخالف طالبان نے بھی ہماری غیرت برگیڈ سے زیادہ کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔
آخر میں ملالہ کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ سوات واپس آئیں، خواتین کے کسی بھی مدرسے میں داخلہ لیں، اور اپنے قلم کے ذریعے عالمی سازشوں کو بے نقاب کریں۔
اب تو ایک 'طالب' نے بھی ملالہ پر حملے کی حامی بھر لی ہے، شائد اب ہمارے پڑھے لکھے جاہلوں کے دماغی ہیضے میں کچھ افاقہ ہو۔ اس خط میں ہمارے اس طبقے کی نظریاتی کشمکش کی تمام علامات موجود ہیں اور تاریخ کا جس طرح بیڑہ غرق کیا گیا ہے، وہ ایک روز مرہ کی چیز ہے۔
عدنان رشید پاکستان فضائیہ میں بحیثیت ائیر مین کئی سال گزار چکے ہیں اور پرویز مشرف پر حملے کی پاداش میں انھیں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ بنوں جیل پر حملے کے بعد وہ وہاں سے فرار ہو گئے۔
'نوائے افغان جہاد' نامی رسالے میں انکا انٹرویو پچھلے کئی ماہ سے قسط وار چھپ رہا ہے۔ اس رسالے کا تعارف اسکے اپنے الفاظ میں ملاحظہ کریں:
"قارئین کرام! عصر حاضر کی سب سے بڑی صلیبی جنگ جاری ہے۔ اس میں ابلاغ کی تمام سہولیات اور اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے تمام ذرائع، نظام کفر اور اس کے پیروؤں کے زیر تسلط ہیں۔ ان کے تجزیوں اور تبصروں سے اکثر مسلمانوں میں مایوسی اور ابہام پھیلتا ہے، اس کا سدباب کرنے کی ایک کوشش کا نام ’نوائے افغان جہاد‘ ہے۔"
عدنان رشید کے انٹرویو کے چند چیدہ چیدہ اقتسابات مندرجہ ذیل ہیں؛
'جب 9/11 کا واقعہ ہوا تو اس کے بعد میڈیا اور ہر جگہ، ہر محفل میں اور فوج کے اندر بھی یہ باتیں ہوتی تھیں کہ کیا یہ حقیقت ہے؟ شیخ اسامہ کو حوالے کرنے کے مسئلے پر بھی بہت بات ہو رہی تھی، میری ان حالات سے غیر معمولی وابستگی تھی۔ افغان مجاہدین سے مجھے بچپن سے محبت تھی کیونکہ وہ بچپن میں میرے علاقے میں آتے تھے، وہاں مساجد میں رہا کرتے تھے، تو ہم انکی خدمت کرتے تھے۔‘
’جب ان لوگوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم امریکہ کا ساتھ دیں گے تو ہم نے کھلم کھلا یہ اعلان کر دیا کہ یہ غلط ہو رہا ہے اور ہم خیال لوگوں سے ملنا شروع کر دیا، تو ایسے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد ہو گئی۔ پھر ہم نے سوچا کہ ایک ترتیب ہونی چاہیے، نظم ہونا چاہیے تو و ہ ترتیب بھی بن گئی۔ ہمارا یہی کام تھا کہ ہم لوگوں کو دعوتیں دیں اور لوگوں کو بتائیں کہ یہ غلط ہو رہا ہے۔ ہم نے لوگوں کو اس بات سے آگاہ کیا کہ پاکستان کے نام پر آپ کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ کفار کے ساتھ دوستی ٹھیک نہیں ہے۔ ہم لوگ جب پکڑے گئے تو مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا کہ یہ لوگ ملا عمر کے وفادار تھے اور انہوں نے ملا عمر سے وفاداری کا حلف لیا ہوا تھا۔ ہم فخر کرتے ہیں کہ دشمن نے الحمدلاللہ یہ گواہی دی ہے کہ یہ ملا عمر کے وفادار تھے۔ ہم تھے بھی اور ہیں بھی، ہم نے غائبانہ امیر المومنین کی بیعت کی ہوئی تھی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔‘
’ہم میں سے ایک ساتھی ائیر بیس کوئٹہ میں میرے ساتھ تھا۔ میں نے اسے ترتیب میں شامل کیا۔ پھر دعوتی لٹریچر تقسیم کرنا، جہادی سی ڈیز تقسیم کرنا، شیخ اسامہ کی سی ڈی ’الحل‘ تقسیم کرنا ہماری بنیادی ترتیب تھی۔ فوجیوں سے پیسے جمع کر کے مجاہدین کی امداد کرنا بھی اس میں شامل تھا۔‘
’ابھی حال ہی میں سیاچن میں جو ان کے لوگ مارے گئے ہیں، ان میں کتنے ہی لوگ شیعہ تھے۔ ان کو بھی یہ لوگ شہید کہتے ہیں۔ اب اس حالت میں معاشرے میں نہ علماء بتاتے ہوں، کوئی اور بتانے والا نہ ہو تو پھر یہی حال ہو گا۔‘
ان اقوال زریں کو پڑھنے کے بعد ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس طرح کے نظریات کے لوگ پاکستانی فوج میں پنپ سکتے ہیں تو اسامہ بن لادن اتنے سال ایبٹ آباد میں بھی گزار سکتا ہے۔ کئی جگہ تو یوں بھی لگا گویا ہم نوائے وقت کا اداریہ پڑھ رہے ہوں۔ بحرحال، یہ ہے ہماری سرحدوں کے محافظوں کی ذہنی حالت۔
لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں
پڑھیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@
