14 مارچ: دنیا ماتم کرے یا جشن منائے؟
ابتدائی ادوار میں کئی صدیوں تک سائنسی علوم میں مسلمان سائنسدان کا سکہ چلتا رہا اور سائنس کی تمام اہم شاخوں کی بنیاد مسلم سائنسدانوں نے ہی رکھی، مگر پھر مسلمانوں پر آنے والے زوال کے ساتھ ہی سائنسی علوم پر بھی زوال آتا گیا اور کئی صدیوں تک سائنسی پیش رفت جمود کا شکار رہی۔
اس جمود کو ایک باصلاحیت اطالوی ماہرِ ریاضیات و فلکیات نے توڑا جسے دنیا آج "گلیلیو گلیلی" کے نام سے جانتی ہے۔
گلیلیو گلیلی کو اپنے سائنسی نظریات کے باعث شدید مزاحمت اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں مگر وہ با ہہمت انسان آخری وقت تک اپنے نظریات پر قائم رہے۔
گلیلیو گلیلی کے بعد 1865میں پروفیسر کلارک میکسویل نے برقی مقناطیسی میدان میں بہت پیچیدہ اور قدرے منفرد اہمیت کے حامل حساب و کتاب کیے، جو 1873 میں ایک سائنس جرنل میں شائع ہوئے تو برٹش ایسوسی ایشن نے یہ حتمی بیان جاری کیا کہ اس جلد کے کسی بھی حصے میں کوئی بھی ریاضی دان اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں کر سکے گا جب تک اسے یہ یقین نہ ہو کہ یہ انہی قوانین سے متعلق ہے، جن کا طریقہ کار اور ماخذ خالص طبیعات کے اصولوں پر ہو، لہذاٰ اگلے 15 برس میں اس حوالے سے جو کچھ بھی دریافتیں ہوئیں انہیں میکسویل کے قوانین پر مشتمل کام میں ضم کیا جاتا رہا اور یہ مسئلہ طویل عرصے تک تحقیقات میں جمود کا باعث بننا رہا۔
پھر اس جمود کو البرٹ آئن اسٹائن نے توڑا جن کے قوانین و نظریات کی ایک صدی بعد تصدیق ہو رہی ہے اور انہیں ہر دور کا ذہین ترین انسان قرار دیا جا چکا ہے۔
14 مارچ 1879 کو جنوبی جرمنی کے شہر الم میں واقع گاؤں 'سوابین 'میں پیدا ہونے والے البرٹ آئن اسٹائن کے متعلق ابتدا میں کوئی گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ بچہ مستقبل میں طبیعات جیسے مشکل مضمون میں انقلاب لانے کا باعث بنے گا۔
اس بچے کی نشو ونما بچپن ہی سے بہت سست تھی، عام بچوں کے برعکس 2 سال کی عمر میں اس نے بمشکل ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بولنا شروع کیا جسے سمجھنے میں اس کے والدین کو بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
اسکول میں بھی اس کا شمار سست رفتار بچوں میں کیا جاتا تھا، جو سیکھنے اور پڑھنے میں بہت وقت لگاتے تھے، اس کے والدین ہی نہیں پورا خاندان متفق تھا کہ یہ بچہ بمشکل ہی کوئی ڈگری حاصل کر سکے، مگر وقت نے دیکھا کہ 19ویں صدی کے اوائل میں سوئٹزر لینڈ کے پیٹنٹ آفس میں ایک کلرک کی معمولی نوکری کرتے ہوئے نہایت خاموشی اور غیر محسوس انداز میں البرٹ آئن اسٹائن نے جو تحقیقات سرانجام دیں وہ نہ صرف مستقبل میں انقلاب لانے کا سبب بنیں بلکہ انہیں بلاشبہ صدیوں پہلے شروع کی جانے والی سائنسدانوں اور ماہرین ریاضیات کی کوششوں کا تسلسل کہا جاسکتا ہے۔
اسکول میں اوسط درجے کے بچوں میں شمار ہونے کے باوجود آئن اسٹائن کی ریاضی میں دلچسپی اور رجحان غیر معمولی تھا، حالانکہ عام طور پر نوٹ کیا جاتا ہے کہ ریاضی یا طبیعات میں غیر معمولی ذہین بچے ہی دلچسپی لیتے ہیں مگر آئن اسٹائن کا شمار ذہین طلبا میں نہیں کیا جاتا تھا اور اس کے اساتذہ زیادہ تر اس سے نالاں رہا کرتے تھے، جب وہ لیکچر کے دوران کسی قانون کو "وژولائز" کر کے اسے بنیاد سے سمجھنے کی کوشش کررہا ہوتا تو اس کے اساتذہ اسے غائب دماغی سمجھ کر اسے کلاس سے باہر نکال دیا کرتے اور اگلے روز اس کے والد کو شکایت بھیج دی جاتی۔
یہ بھی پڑھیں: سمجھ نہ آنے والا آئن اسٹائن ایک صدی بعد دنیا کو سمجھ آگیا
دوسری جانب صرف 15 برس کے عمر میں اپنی مدد آپ کے تحت ریاضی کے پیچیدہ اصولوں اور کیلکولس میں مکمل مہارت حاصل کر لینے کے بعد آئن اسٹائن کا دل اسکول، لگی بندھی روٹین اور فرسودہ سلیبس سے اکتا گیا تھا، مگر یہ صرف ایک آئن اسٹائن کا مسئلہ نہیں تھا، ایسا گلیلیو گلیلی، راجر بیکن، آئزک نیوٹن کے ساتھ بھی ہوچکا تھا اور یقینا مستقبل میں بھی اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک اساتذہ طلبا کے ذہنی و طبعی رجحان کو سمجھنے کے بجائے انہیں کتابوں میں لکھا رٹانے اور سلیبس پورا کروا نے پر مصر رہیں گے۔