ناول ’بھید‘ میں کہانی کو کچھ اس انداز میں بیان کیا گیا جس میں بہت سے اہم کردار اور واقعات یوں گزر جائیں کہ وقت گزرنے کے بعد ان کا کوئی سراغ ہی نہ ملے۔ جیسے وہ کسی اور دنیا میں، کسی اور سیارے پر اور کسی اور فرد کے ساتھ پیش آئے ہوں۔ ناول پلاٹ کی بندش سے قدرے آزاد ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ پلاٹ اگر کوئی ہے تو اس کو ڈھونڈنا قاری کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اس میں کوئی یک رخی کہانی نہیں ہے، بلکہ مختلف کرداروں کی بظاہر بکھری ہوئی کہانیاں ایک پولی فونی (Polyphony) کی صورت، ایک موسیقی ترتیب دیتی ہیں۔
روایتی ناول کا پلاٹ کسی بھید کا پتہ دیتا ہے۔ اسے ناول کا ایک موہوم، مبہم یا گریزاں مرکز بھی کہا جاسکتا ہے۔ کہانی کار اس مرکز، اس بھید کے سراغ کی کچھ جھلکیاں دکھاتا ہے، مگر اس پر مکمل روشنی نہیں ڈالتا۔ کہانی کا جزوی ابہام برقرار رہتا ہے۔ کہانی کا کوئی سرا، عام طور پر ناول میں موجود مختلف کہانیوں میں کسی مشترکہ خیال اور اس کے بھید کو جزوی طور پر آشکار کرتا ہے۔ ناول ’بھید‘ کی کہانی میں راوی کا کردار بہت اہم ہے اور وہی ان تمام کرداروں میں باہم ربط کا اہتمام کرتا ہے۔ تاہم ناول میں خیال کی اس مشترک لہر کو مزید رواں اور روشن رکھنے کی ضرورت تھی جو قاری کو کہانی کے دوسرے کنارے تک لے جاسکے۔
ناول میں قاری اور راوی کے درمیان حدِ تقسیم کو ختم کرکے کہانی کو کسی حد تک ایک کھیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ راوی کے مکالماتی آہنگ میں مزاح کا عنصر ہے جو قاری کو کسی بھی لمحے اپنی دلچسپی کم نہیں ہونے دیتا۔ راوی بار بار یہ واضح کرتا ہے کہ یہ محض ایک کہانی ہے اور ایک گمشدہ مسودے کی صورت میں اسے ملی ہے، اور وہ شاید خود بھی اسی گمشدہ مسودے کا ایک کردار ہے۔