Dawn News Television

شائع 22 مارچ 2019 11:52am

’لال کبوتر: ٹوٹل پیسہ وصول فلم‘

لال کبوتر کو چند لائنوں میں سمویا جائے تو یہ کراچی کے ایک ٹیکسی ڈرائیور کی کہانی ہے جو اپنے حالات بہتر بنانے کے لیے دبئی جانا چاہتا ہے اور اس واسطے اسے 3 لاکھ روپے درکار ہیں، جن کو حاصل کرنے کے لیے وہ اپنے جرائم پیشہ دوستوں کے ساتھ مل کر ٹیکسی چھینے جانے کا ڈرامہ کرتا ہے اور اس ڈرامے کے دوران اس کی ملاقات حادثاتی طور پر ایک لڑکی سے ہوجاتی ہے جس کے صحافی شوہر کو ایک مقامی بلڈر نے نامعلوم ٹارگٹ کلر کے ہاتھوں قتل کروادیا ہوتا ہے۔

لال کبوتر میں ٹیکسی ڈرائیور کا کردار احمد علی اکبر نے ادا کیا ہے اور وہ اس کردار میں خوب جچتے ہیں۔ کراچی جیسے شہر میں ایک غریب نوجوان کس قسم کے مسائل کا شکار ہوسکتا ہے، اس کی بھرپور عکاسی احمد علی اکبر نے کی ہے۔

مزید پڑھیے: لالچ، طاقت اور بدلے کی کہانی ’لال کبوتر‘

مقتول صحافی کی بیوی کا کردار کہنہ مشق منشا پاشا نے نبھایا ہے، مگر اسکرپٹ رائٹر نے ان کے کردار میں پرفارمنس مارجن کم ہی رکھا ہے، پھر یہ بھی کہیں بتانے کی کوشش نہیں کی گئی کہ منشا پاشا کرتی کیا ہیں، لیکن ان تمام تر کمی کوتاہی کے باوجود منشا کو جہاں جہاں جس منظر میں بھی اداکاری دکھانے کا ذرا سا بھی موقع ملا تو اس نے مایوس نہیں کیا ہے۔ پولیس انسپیکٹر جب ان سے تھانے میں الٹے سیدھے سوال کررہا ہوتا ہے تو ان کی پرفارمنس قابلِ دید ہے۔

لال کبوتر میں پہلی بار منشا پاشا اور احمد علی اکبر ایک ساتھ کام کر رہے ہیں—اسکرین شاٹ

پولیس انسپیکٹر کے کردار میں راشد فاروقی اور ٹارگٹ کلر کے کردار میں سلیم معراج، دونوں اس فلم کی جان ہیں۔ میری ناقص رائے میں اگر پولیس انسپیکٹر کا کردار سلیم معراج اور ٹارگٹ کلر کا کردار راشد فاروقی کو دیا جاتا تو فلم زیادہ بہتر ہوسکتی تھی۔

سلیم معراج ایک بڑا اداکار ہے اور خواہ اس کے فلم میں سینز گنتی کے ہی کیوں نہ ہوں، وہ جب جب سنیما اسکرین پر دِکھے گا، چھا جائے گا۔ سلیم معراج یہ بات پہلے بھی کئی فلموں میں ثابت کرچکے ہیں اور لال کبوتر میں بھی وہ اپنی اداکاری سے سب کو متاثر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

فلم کی ہدایات کمال خان نے دی ہیں اور وہ اس کم بجٹ کی فلم کو اتنا خوبصورت بنانے پر بلاشبہ تحسین کے مستحق ہیں۔ کراچی کی بستی، کالونیاں اور اوریجنل لوکیشنز پر جس طریقے سے فلم کو عکس بند کیا گیا ہے، وہ قابلِ داد ہے۔ فلم کا میوزک غیر روایتی ہے اور کانوں پر اچھا تاثر چھوڑ جاتا ہے۔ بیک گراونڈ میوزک بھی فلم کے ہر منظر سے مطابقت رکھتا ہے۔

لال کبوتر پاکستانی فلم انڈسٹری کے کرتا دھرتاؤں کی اس گھسی پٹی سوچ کو منہ توڑ جواب ہے جن کے مطابق ایک کمرشل فلم کی کامیابی کے لیے بڑے نام اور آئیٹم نمبرز بہت ضروری ہیں، کیونکہ لال کبوتر میں نہ ہی کوئی آئیٹم نمبر ہے اور نہ ہی فلم میں کوئی بڑا کمرشل نام ہے مگر اس کے باوجود یہ فلم آغاز سے اختتام تک آپ کو اپنے سحر میں جکڑے رکھتی ہے۔

کراچی کی بستی، کالونیاں اور اوریجنل لوکیشنز پر جس طریقے سے فلم کو عکس بند کیا گیا ہے، وہ قابلِ داد ہے—اسکرین شاٹ

فلم کا دورانیہ 94 منٹ ہے۔ سو فلم کی کہانی پہلے حصے میں جس سستی سے آگے بڑھتی ہے وہ آپ کو بالکل بھی ناگوار نہیں گزرتا کیونکہ فلم طوالت پکڑنے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ نیز فلم کے دوسرے ہاف میں واقعات اتنی سرعت سے وقوع پذیر ہوتے ہیں کہ آپ فلم میں منہمک ہوکر رہ جاتے ہیں۔

مزید پڑھیے: منشا پاشا، علی کاظمی اور ’لال کبوتر‘

لال کبوتر ایسے وقت میں ریلیز ہوئی ہے جب پاک بھارت کشیدگی کے سبب پاکستان میں بھارتی فلموں پر پابندی عائد ہوچکی ہے، اور سنیما گھروں کا اس وقت سارا دار و مدار پاکستانی فلموں پر ہی ہے۔ لیکن امید ہے کہ یہ ہفتہ سنیما گھروں اور شائقین کے لیے اچھا گزرے گا کیونکہ لال کبوتر کے ساتھ فلم شیردل بھی ریلیز ہوئی ہے۔

اگر میری رائے لی جائے تو میں یقینی طور پر لال کبوتر کو 2019 کی پہلی سپرہٹ فلم قرار دے سکتا ہوں۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ چونکہ سنیما شائقین ہمیشہ ہی ایک اچھی فلم کے منتظر ہوتے ہیں اور لال کبوتر کسی ایک شعبے میں بھی انہیں مایوس نہیں کرے گی۔

Read Comments