وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایک اجلاس میں یہ دعوی کیا کہ صوبائی حکومت سڑک کو دوبارہ ڈیزائن کرنے پر کام کر رہی ہے اور کلورٹس کے بجائے پُلوں کی تعمیر کے لیے وفاقی حکومت کو تجویز بھی ارسال کردی گئی ہے۔ تاہم گوادر پورٹ اتھارٹی (جی پی اے) کے چیئرمین نصیر خان کاشانی کے مطابق ایک پل پر لاکھوں ڈالرز کی لاگت آجاتی ہے جبکہ ماہی گیر 3 پلوں کا مطاکبہ کر رہے ہیں۔ ایک اور افسر کے مطابق بیوروکریسی نے اس مسئلے کو پیچیدہ بنا دیا ہے، طے یہ ہوا کہ چینی یہ لاگت ادا کریں گے لیکن اس امید میں کہ ماہی گیر ایک عرصے کے بعد مسئلے کو بھول جائیں گے، یہ عمل تاخیر کا شکار ہوگیا ہے۔ افسران نے حکومت کو یہ تاثر دیا کہ متعلقہ چینی ادارے کو دوبارہ ڈیزائن کرنے کی درخواست کرنے سے متعدد بار لاگت میں اضافہ ہوسکتا ہے اور چینی اس کے بدلے میں دیگر مطالبات بھی کرسکتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے لیکن یہ صوبائی حکومت، جی ڈی اے اور جی پی اے کے لیے ایک حقیقی امتحان جیسا ثابت ہوگا۔ ماہی گیروں کے مطالبات کو پورا کرنے میں تاخیر سی پیک کے خلاف غیرضروری غصے کا باعث بن رہی ہے۔
لکھاری کا حال ہی میں جب گوادر جانا ہوا تو اس دوران ان سے تاجروں اور دکانداروں نے سی پیک اور بندرگاہ پر چینیوں کی موجودگی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان میں جس ایک چیز کی کمی ہے وہ ہے چینیوں سے براہ راست رابطہ۔ چند افراد نے 2006ء سے پہلے کے وقت کو یاد کیا کہ جب چینی انجینئرز اور مزدور آزادانہ طور پر یہاں وہاں گھومتے تھے، جس کی وجہ سے مقامی کاروبار کو تقویت ملی تھی۔ مگر پھر بندرگاہ پر ہونے والے دہشتگرد حملے نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا اور اب تو شہری چینیوں کو صرف سخت سیکیورٹی میں صرف ہائی ویز پر سفر کرتے یا پھر بندرگاہ کی دیواروں کے پیچھے دیکھ پاتے ہیں۔
سی پیک سے اب تک اس شہر کے رہائشیوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، لیکن پُرامیدی کا دامن چُھوٹا نہیں ہے۔ اب تک 269 بلوچوں کو جی پی اے میں گریڈ ایک سے 16 تک کی ملازمتوں پر رکھا جا چکا ہے، لیکن جی پی اے کے چیئرمین کو یقین ہے کہ 2025ء کے آتے آتے جب زیادہ تر سی پیک منصوبے تکمیل کو پہنچ جائیں گے تب ان سے شہر میں رہنے والوں کے ذریعہ معاش پر لازمی طور پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
گوادر ان دنوں محفوظ ہے، دہشتگردی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مگر سیکیورٹی انتظامات سے زیادہ ایک خوف سا ماحول موجود ہے۔ مقامی صحافی شہریوں کے مسائل کے بارے میں محدود رپورٹنگ کرسکتے ہیں حتیٰ کہ پانی فراہمی کے مسائل پر بھی۔ شاید عمران خان کا عنقریب دورہ اور بے تکلفانہ گفتگو و ایکشن مقامیوں کو غیریقینی اور خوف کے ماحول سے چھٹکارہ دلانے میں مدد دے۔
یہ مضمون 24 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔