سابق سول سرونٹس اور ریٹائرڈ فوجی افسران کی میزبانی میں ہونے والی میٹنگ کے دوران 92 سالہ چابک اور واضح گفتار کی حامل نظر آنے والی نین تارا سہگل نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے ادبی خدمات پر دیے جانے والے سرکاری اعزاز کو لوٹا کر مودی کے خلاف زبردست سویلین احتجاجی سلسلے کا آغاز کیا۔
راہول گاندھی بھی موجودہ سیاسی ماحول کو فاشزم کا نام دیتے ہیں۔ صرف کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسی) نے اپنے منشور میں اس لفظ کو استعمال کرنے سے گریز کیا ہے، شاید اس کی وجہ یہ پریشانی ہو کہ کہیں انہیں یہ وضاحت نہ دینی پڑجائے کہ انہوں نے 1977ء (میں جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کے وقت) اور 1989ء (میں بی جے پی کے حمایت یافتہ وی پی سنگھ کی حمایت کرتے وقت) فاشسٹوں سے ہاتھ کیوں ملایا۔
12 مارچ کو مودی کی آبائی ریاست گجرات میں معنقد ہونے والے کانگریس کے ایک اجلاس کے بعد راہول گاندھی نے ایک ٹوئیٹ کے ذریعے کُل حزب اختلاف اتحاد کی امیدیں بڑھائیں، ٹوئیٹ میں انہوں نے لکھا تھا کہ، ’گاندھی جی کے تاریخی ڈنڈی مارچ کی سالگرہ کے موقعے پر کانگریس نے احمد آباد میں اپنی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں آر ایس ایس / بی جے پی کے فاشزم، نفرت اور تفریقیت کے نظریے کو شکست دینے کا عزم کیا ہے۔ اس کام میں کوئی قربانی عظیم ترین نہیں، نہ کوئی ایک کوشش حقیر ترین ہے۔ یہ جنگ جیت لی جائے گی۔‘
پیش بینی تو شاندار تھی، مگر کہاں ہے وہ قربانی جس کا وعدہ کیا گیا؟ کانگریس نے 2014ء میں 465 امیدواروں کی کثیر تعداد میدان میں اتاری اور کم ترین ووٹ حاصل کیے۔ کیا اتحادیوں کو موقع فراہم کرنے کے لیے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے امیدواروں کی تعداد 250 تک نہیں گھٹائی جاسکتی؟ قربانیوں کو تو ایک طرف رکھیے، کانگریس نے تو مایاوتی اور ممتا بینرجی جیسے میچ ونرز کو بھی خفا کردیا ہے۔ راہول گاندھی نے اروند کیجریوال کو اہمیت ہی نہیں دی ہے، اور اب لیفٹ فرنٹ پر سامنے سے وار کیا ہے۔ کیا راہول گاندھی واقعی جیتنا بھی چاہتے ہیں؟
یاد رہے کہ دوسرا موقع شاید پھر نہ ملے۔
یہ مضمون 2 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔