حکومت کی جانب سے مجوزہ پمرا کے ذریعے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قبل از وقت ضابطے کے اقدامات کی حوصلہ شکنی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لائسنس کے اجرا اور سینسرشپ کا نظام جب کسی قسم کے عدالتی عمل دخل کے بغیر انتظامی افسران کے ذریعے چلایا جائے تو یہ ریاستی جبر کے لیے مزید ایک اور اوزار سا بن جائے گا اور بالآخر پاکستان کے آن لائن ابلاغی ذرائع پر اظہار آزادی کا راستہ مکمل طور پر بند ہوجائے گا۔
اگر اظہار رائے کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے تو اسے ایگزیکیٹو فیصلوں کے بجائے عدالتی راستے کے تحت کیا جائے۔ اس کے علاوہ اگر کسی شخص پر اظہار آزادی کے حق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا جاتا ہے تو اسے یہ ثابت کرنے کا موقع فراہم کیا جائے کہ انہوں نے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی بات لکھی یا کہی ہے۔ ماضی میں سپریم کورٹ کچھ یوں فرما چکی ہے کہ، اظہار آزادی میں عوامی رائے کے ذرائع سے معلومات کے حصول کا حق بھی شامل ہے جبکہ دوسری طرف پریس کی آزادی کا انحصار معلومات کی وسیع نشرو اشاعت کے تصور پر ہے۔ اس قسم کی نشرو اشاعت پر ضابطوں کو ٹھیک نہیں سمجھا جاسکتا۔
پاکستانی کے انٹرنیٹ صارفین کی آوازیں دبانے کے طریقے تلاش کرنے کے بجائے حکومت کو چاہیے کہ وہ (ایف آئی اے اور عدالتوں جیسے) اداروں کی صلاحیت بڑھانے پر فنڈ فراہم کرے جو کہ غیر قانونی آن لائن زبان کا استعمال کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے ذمہ دار ہیں تاکہ معاملہ فہمی کے ساتھ ساری صورتحال کا جائزہ لیا جائے اور آزادی کا غلط استعمال کرنے والوں کو سزا دی جائے۔ اسی طرح، جعلی خبروں کا مقابلہ عوامی معلوماتی مہمات کے ذریعے کیا جائے تاکہ عوام میں ان کے آن لائن مواد کے ذرائع کے حوالے سے فیکٹ چیکنگ (حقیقت کی جانچ پڑتال) کی ضرورت کا شعور بیدار کیا جائے۔ اس قسم کے اقدامات سے ہمارے آن لائن ابلاغی ذرائع یقینی طور پر محفوظ ہوں گے بلکہ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اس طرح یہ ذرائع آزاد بھی رہیں گے۔
یہ مضمون 3 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔