رات دن کام کرنے والی صنعتوں کے مالکان زیادہ تر اپنے شفٹ ملازمین کو کمپنی کے زیرِ انتظام ویگن سروسز فراہم کرتے ہیں، کیونکہ رات کے وقت عوامی ٹرانسپورٹ کے ذریعے کام کی جگہوں تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ تاہم مسائل اس وقت سر اٹھانے لگتے ہیں جب شہر میں ہڑتالیں ہوں اور ٹریفک کی نقل و حرکت محدود ہوجائے۔
ایسی صورتحال میں فیکٹری انتظامیہ کے پاس واحد آپشن یہ رہ جاتا ہے کہ ملازمین کو کام کی جگہوں تک ہی محدود رکھا جائے اور ان سے 2 شفٹوں یا پھر 3 شفٹوں یعنی 24 گھنٹے کا اوور ٹائم کام لیا جائے۔ اس طرح مسلسل طویل وقت تک کیا جانے والا یہ کام نہ صرف ملازمین کے لیے انتہائی تھکادینے والا ہوتا ہے بلکہ اس طرح انہیں کسی قسم کے حادثے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
جب پاکستان اسٹیل ملز کا عروج تھا تو ان دنوں ملز کی انتظامیہ کراچی میں بڑی تعداد میں بسیں چلایا کرتی تھی جو ملازمین کو پورے شہر سے اٹھایا کرتی تھی اور دوبارہ ان کے رہائشی علاقوں تک چھوڑنے جاتی تھیں۔ اگرچہ ملز میں کام کرنے والے 20 ہزار سے زائد ملازمین میں سے ایک اچھی خاصی تعداد اسٹیل ملز کے قریب واقع گلشن حدید یا اسٹیل ٹاؤن کی آبادیوں میں رہائش پذیر تھی، مگر پھر بھی ملازمین کی اکثریت شہر سے ہی آیا کرتی۔ چونکہ وہاں ضرورت سے زیادہ اسٹاف موجود ہوتا اس لیے بس کی یہ سواری ان لوگوں کے لیے ایک باعثِ لطف سفر ہوا کرتا جن کے پاس کرنے کو زیادہ کام نہیں ہوتا تھا۔
آج کی بات کریں تو میں گزشتہ 14 برسوں سے اسٹیڈیم روڈ پر واقع ایک ہسپتال میں کام کر رہا ہوں، اور گھر سے ہسپتال کے درمیان روزانہ 30 کلومیٹر سے زائد سفر کرتا ہوں۔ جس کے بعد کار پارکنگ سے اپنے دفتر تک پہنچنے کے لیے مجھے مزید نصف کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے۔ شفٹوں میں کام کرنے والا اسٹاف مثلاً نرسیں اور ٹیکنکل اسٹاف، زیادہ تر یا تو اپنی سواری یا پھر کنٹریکٹر/پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے ہسپتال آتے ہیں لہٰذا انہیں وقت پر پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔
میٹرو بس متعارف کروانے اور سرکولر ریلوے کی بحالی سے یقیناً مشکلات کا سامنا کرتے عوام کی دشواریوں میں کمی واقع ہوگی۔
یہ مضمون 10 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔