اس قسم کی حکمت عملی کو پالیسی، عملی اور تکمیلی سطح پر چین کے ساتھ مربوط رکھنا ضروری ہوگا۔ پاکستان کو تعاون کے ہر ایک معاملے میں پاکستان کے اندر اور باہر موجود نجی یا سرکاری شعبے سے وابستہ سب سے بہترین دستیاب تکنیکی اور انتظامی ماہرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔ ایک خودمختار سی پیک اتھارٹی کا قیام اپنی منشا کے مطابق نتائج کے حصول میں مددگار رہے گا۔
عظیم طاقت کی جاری دوڑ کے باعث رفابت سے بھرپور اس ماحول میں اسلام آباد کو اسٹریٹچک اعتبار سے واضح مؤقف اپنانا ہوگا۔ ہندوستان کی دشمنی تو مستقل جاری رہے گی، ممکن ہے کہ انتخابات کے بعد یہ دشمنی، تناؤ یا پھر دوسرے کو پچھاڑنے کی دوڑ تک محدود ہوجائے۔
امریکی ساؤتھ ایشیا حکمت عملی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان خطے میں غالب ہو۔ ایسی کسی خوش فہمی میں متبلا سوچ کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی کہ خیر سگالی یا ہوشیار سفارتکاری کے اظہار سے اس حکمت عملی کو بدلنا ممکن ہے۔ امریکا پاکستان کو اس وقت ہی مساوی نظر سے دیکھے گا جب اسے پاکستان میں پرکشش اقتصادی مواقع نظر آئیں گے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کو چین کا تعاون درکار ہے۔
پاکستان کے پاس سب سے اچھا آپشن یہی ہے کہ وہ ’خود کو چین کے ساتھ لوہے کے چھلوں کے سے باندھ دے’ کہ یہی تجویز 1962ء میں اس وقت کے وزیر خارجہ ایس کے دہلوی نے بھی دی تھی۔ اس نادر موقع کو ایک بار پھر ٹھکرانا ہمارے لیے کسی سانحے سے کم نہیں ہوگا۔
یہ مضمون 24 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔