اگر کوئی حلقہ وزیر اعظم عمران خان کو الزامات اور تنقید کا ہدف بننے سے بچانے اور عمران خان اور 2023 کے عام انتخابات کے درمیان ٹیکنوکریٹک فاصلہ قائم کرنے اور صدارتی طرز حکومت کی حمایت میں ڈھول پیٹنے کے لیے وقفہ حکمرانی کے استعمال کا خواب دیکھ رہا ہے تو وہ غلطی پر ہیں۔
کھیل اور خفیہ منصوبے بہت ہوگئے، اصلاحات اب ناگزیر ہیں۔ عوام ایک عرصے سے تکلیف سہتے آرہے ہیں، مرکز میں بیٹھی قیادت کو چاہیے وہ اصلاحات کے باعث مقبولیت میں کمی کو کچھ عرصے کے لیے سہہ لے اور اس کے نتائج پر کام کرے جو کہ مقبولیت کو بالآخر بحال کردیں گے۔
دنیا کے کئی خطوں میں اقتصادی اور گورننس ڈھانچے مکمل طور تبدیل کیے جاچکے ہیں، یہ دیکھنے کے لیے تاریخ کی زیادہ گہرائی میں جانے کی بھی ضرورت نہیں۔ تاہم نہ حفیظ شیخ نہ ہی حفیظ پاشا اور ان کی بیگم ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نہ عاطف میاں کوئی جادوئی کمال دکھا سکتے ہیں۔ ہمیں مسئلے کے جادوئی اور فوری حل کے طریقوں اور طلسماتی چھڑیوں کی تلاش چھوڑ دینی چاہیے اور ضرورت پڑنے تو خود نیچے بیٹھ کر بھی اپنے کاموں کے نتیجے میں جم چکے میل کو رگڑ رگڑ کر صاف کرنا شروع کردینا چاہیے۔
سنگاپور کے بابائے قوم لی کوان یو نے اپنی کتاب سنگاپور:فرام تھرڈ ورلڈ ٹو فرسٹ میں پاکستان کے پارے میں لکھا تھا کہ ’یہ جلد ہی عیاں ہوگیا تھا کہ انہیں آگے انتہائی کٹھن اور بے لگام مسائل کا سامنا تھا۔‘ تاہم انہوں نے آگے یہ لکھا کہ، ’پاکستانی محنت کش لوگ ہیں اور ایک جدید قوم کی تعمیر کے لیے درکار تعلیم یافتہ اور قابل افراد کی کمی نہیں۔ مگر ہندوستان کے ساتھ نا ختم ہونے والے تنازع نے پاکستان کے وسائل ضائع اور اس کی قوت کو محدود کردیا ہے۔‘
یہ مضمون 29 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔