کیا یونیورسٹیاں دیگر ذرائع سے مالی ضروریات کو پورا کرسکتی ہیں؟ عام طور پر یونیورسٹیاں فیس یا حکومت سے ملنے والی رقوم کے ذریعے پوری طرح اپنے اخراجات پورے نہیں کرسکتی ہیں۔ ان کے پاس عام طور پر المنائی (سابق طلبا)، فلاح انسانی کے لیے کام کرنے والے افراد اور دیگر دلچسپی رکھنے والے فریقین کی جانب سے حاصل ہونے والے عطیات پر مشتمل انڈوومنٹ فنڈز ہوتے ہیں جن سے ایک حد تک اخراجات کو پورا کیا جاتا ہے۔
انڈوومنٹ فنڈ کو سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ایک باقاعدگی سے حاصل ہونے والی آمدن کا سلسلہ بن سکے جس کی مدد سے ری کرنٹ اخراجات کو پورا کرنا ممکن ہوسکے۔ اس کے علاوہ خصوصی فنڈز کو بھی قائم کیا جاتا ہے تاکہ کسی حد تک سرمایہ اور ترقیاتی اخراجات (جیسے عمارت کے لیے عطیات وغیرہ) کا خیال رکھا جاسکے۔
پاکستان میں اس وقت طلبا کی بہت محدود تعداد یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہے، ایسی صورت میں اگر فیسوں میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ تعداد مزید کم تر ہوجائے گی اور فیسوں میں اس اضافے سے ناگزیر طور پر غریب طلبہ کو دھچکا پہنچے گا۔
پاکستان میں ایک یا 2 سرکاری یونیورسٹیوں کو چھوڑ کر زیادہ تر جامعات نے کبھی بھی عطیات اکٹھا کرنے کے عمل کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔ آئی بی اے کا نیا کیمپس ممکنات کی ایک دلچسپ جھلک پیش کرتا ہے، لیکن یہ ادارہ سرکاری یونیورسٹیوں میں ایک الگ حیثیت رکھتا ہے۔
چند ہفتے قبل جب اعلیٰ تعلیم کی فنڈنگ میں کٹوتی کی خبر شائع ہوئی تب اخبارات میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ یونیورسٹیوں کو ’خیرات‘ کا حجم بڑھانے کا مشورہ دیا گیا ہے تاکہ وہ مالی کمی کو پورا کرسکیں۔ لہٰذا اگر المنائی اور/یا فلاح انسانی کے لیے کام کرنے والوں کے ذریعے مالی ضروریات کو پورا کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے تو سرکاری یونیورسٹیوں کو کچھ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہونے والی۔ فنڈنگ کے ذرائع اور مواقع کے بارے میں ذہنیت کو تبدیل کرنا ہی ہوگا۔
اگر یونیورسٹیاں ذہنیت کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور نجی سطح پر مالی معاونت حاصل کرنے کے کام پر لگ جاتی ہیں تب بھی مطلوبہ مقاصد تھوڑے وقت میں حاصل کرنے ممکن نہیں۔ فنڈنگ مہمات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں، جبکہ پاکستان میں فلاح انسانی کے نام پر تعلیمی شعبے میں عطیات دینے کا رجحان کچھ زیادہ نہیں پایا جاتا۔ لہٰذا یہ قلیل مدتی حل نہیں ہے۔
اگر فنڈنگ میں ہر صورت کٹوتیاں ہوئیں تو اس طرح یونیورسٹیوں اور ان طلبہ کے لیے دشواریاں پیدا ہوجائیں گی جو کم فیس والے پروگرامز پر منحصر ہیں۔ سرکاری یونیورسٹیاں تھوڑے وقت میں متبادل مالی ذرائع پیدا نہیں کرسکتی ہیں، لہٰذا انہیں اپنے پروگرامز کو محدود کرنا ہوگا اور/یا ٹیوشن فیس میں اضافہ کرنا پڑے گا، جس کی ملک کے نوجوانوں اور حکمران جماعت کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ اعلیٰ تعلیم کی فنڈنگ میں کٹوتی پر باضابطہ طور پر عمل کروانے سے قبل بہتر ہوگا کہ پی ٹی آئی حکومت یہ یقینی بنالے گہ اس کی ترجیحات کیا ہیں؟
یہ مضمون 3 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔