راہول جواباً یہ کہہ سکتے ہیں کہ وقت بدل چکا ہے اور ہندوستان آگے بڑھ گیا، بلکہ چھلانگ لگا چکا ہے۔ اس وقت کانگریس کو ایک ایسی جماعت کے طور پر تصور کیا جاسکتا ہے جس نے تجارتی سرمایہ داروں کی قذاق صفت اس طبقے کا بڑی حد تک سہارا لینا سیکھ لیا ہے، جو اخلاقیات اور حوصلہ مندی میں جاپان کے میجی کے بعد کے صنعتی انٹرپرنیورز سے دُور دُور تک مماثلت نہیں رکھتے۔
یہ کیسی صنعت کاری ہے کہ انٹرنیٹ تیز کرنے کی مشین باہر سے لانے، فضائی راہداریوں کی خریداری کے لئے رشوت کا پیسہ استعمال کیا جائے، اور مشکل کا شکار سرکاری ٹیلی کام ادارے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے چین سے موبائل فونز درآمد کیے جائیں اور ادارے کو قابو میں رکھنے کے لیے لچکدار حکومت سے رجوع کیا جائے؟
یہ راہول ہی ہیں کہ جنہوں نے پوری انتخابی مہم کے دوران دوست سرمایہ کاری پر خوب تنقید کی، لیکن اگر نہرو، اندرا گاندھی اور ان کے اپنے والد کے تجربے کا جائزہ لیا جائے تو اگر اوسط درجے کے کولیگز، دست نگر اور غریب مشیر رہنماؤں پر غالب آجائیں تو اچھے ارادے بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
گاندھی جی نے قومی ٹائیکونز کو نئے ہندوستان کے ٹرسٹیز پکارا تھا۔ نہرو نے سب سے مہتمم رام کرشنا ڈالمیا کو فراڈ کے الزام میں جیل میں ڈال دیا، اندرا گاندھی ان لوگوں کے بینکوں کو قومی دھارے میں لے آئیں، راجیو گاندھی نے انہیں کانگریس کارکنان کی جان چھوڑنے کی وارننگ دی تھی۔ مگر من موہن سنگھ نے انہیں اپنے نئے ہندوستان کا وژن رکھنے والوں کے طور پر اپنے ساتھ رکھا۔ من موہن سنگھ نے زمین اور جنگل پر اپنے حقوق کی جدوجہد کرنے والے قبائلی لوگوں کو ہندوستان کی اندرونی سالمیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ اپنے علاقے میں واقع ہے بتناک نیوکلیئر یونٹ کے خلاف احتجاج کر رہے غریب دیہاتیوں کو غیر ملکی ایجٹ ٹھہرایا۔
راہول کو لکھنؤ کا دورہ کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہبی جے پی نے کس طرح محمود آباد کے راجہ کے غیر معمولی طور پر کثیرالثقافت اور سیکولر خاندان اور راجہ کی اہلیہ یعنی جگت مہتا کی بیٹی اور واجپائی دور میں وزیرِ خارجہ رہنے والی خاتون، جو آج ڈر اور خوف میں زندہ ہے، کو حراساں کیا گیا ہے، جبکہ انہیں کانگریس اور بی جے پی دونوں کی جانب سے ریاست کے دشمنوں کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ چلیے راہول کا نظریہ خود راہول سے ہی سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ نظریہ ایک انصاف اور برابری پسند مستقبل کے لیے مودی کو شکست دینے کی لڑائی میں مصروف دیگر لوگوں کے خلاف کیسا مظاہرہ کرتا ہے۔
یہ مضمون 7 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔