ماؤں کے عالمی دن کے اس موقعے پر ایک اور بھی سوال ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے، کیونکہ اس سوال کا جواب بھی ہماری اقدار کے بارے میں بہت کچھ آشکار کرتا ہے۔ کیا ہمیں صرف ممتا اور ماؤں پر ہی غور و فکر کرنا ہے یا پھر ہم اپنے دلوں میں دیگر مختلف حالات میں مشکلات کا سامنا کرنے والی لڑکیوں اور خواتین کی خوشحالی کے لیے بھی کوئی جگہ رکھتے ہیں یا نہیں؟
سوال کی حساسیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں صرف پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2017 کے قابل فکر اعداد و شمار کا رخ کرنے کی ضرورت ہے جو یہ بتاتے ہیں کہ 4 میں سے ایک خاتون شادی کے بعد تشدد کا سامنا کرتی ہے، اور اس سے بھی فکر کی بات یہ ہے کہ 41 فیصد سے زائد خواتین کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ کھانا پکانے میں غلطی یا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلنے جیسی قدرے معمولی وجوہات کی بنا پر یہ تشدد جائز ہے۔
ان اعداد و شمار کا تعلق تو صرف اس تشدد سے ہے جس کا سامنا ان خواتین کو شادی کے بعد ہوتا ہے۔ یہ خواتین گھر کے اندر یا باہر اور کام کی جگہ پر ہونے والے مختلف نوعیت کے تجربات کو تشدد میں شمار ہی نہیں کرتیں۔ کام کی جگہوں پر خواتین کے لیے نامناسب حالات ملازمتوں میں خواتین کی شراکت داری میں کمی کی ایک اہم وجہ ہے۔ یہ تو صاف ہے کہ پاکستانیوں کو خواتین کے لیے نہ صرف بطور ماں بلکہ اس قدر و اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فکرمند رہنے کی ضرورت ہے جو وہ ہر ایک گھر، ہر ایک خاندان اور سماج کے لیے رکھتی ہیں۔
ہمیں حقوق نسواں اور اطفال پر اپنے طرز فکر کو سرے سے بدلنے کے لیے قدم اٹھانا ہوگا۔ ہر کم عمر لڑکی جس کی بچپن میں شادی کروائی جاتی ہے، ہر خاتون جو نہ چاہتے ہوئے یا غلط وقت پر حمل سے ہوتی ہیں، ہر وہ لڑکی جسے تعلیم حاصل نہیں کرنے دی جاتی یا پھر گھر سے باہر تشدد کے خوف کے باعث کام کرنے کا موقع فراہم نہیں ہوتا، اور وہ تمام خواتین و لڑکیاں جو گھر کے اندر اور باہر بلاواسطہ تشدد کا سامنا کرتی ہیں، ان کی بھی اتنی ہی فکر ہونی چاہیے جتنی فکر ہر ایک ماں کی قیمتی جان بچانے پر دکھائی جاتی ہے۔ وہ معاشرہ جہاں انسانی زندگی کے ان پہلوؤں پر دھیان نہیں دیا جاتا وہ یقیناً ایک قابلِ رحم معاشرہ ہے۔
یہ مضمون 12 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔