ریئل اسٹیٹ ہو یا تجارت، کنسلٹنگ ہو یا ٹھیکداری، بروکریج ہو یا بینکاری، صحت ہو یا پھر تعلیم ہر شعبہ اور میدانِ عمل سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ صرف فِٹ ترین عناصر ہی اپنا وجود قائم رکھ پاتے ہیں جبکہ بڑی تعداد میں دیگر افراد منفی اثرات کی زد میں آجاتے ہیں۔ تاہم اگر پلان کو قانونی طور پر متسحکم کیا جائے تو اس کے ہر ایک منصوبے یا پروگرام پر نگرانی اور جائزے کا ایسا بندوبست کرنا ممکن ہوگا جو ضروری نہیں کہ پلان کی شرائط میں شامل ہو۔
شہر کے تعمیراتی ماحول کا تصور اس کے سٹی پلان کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کیا جائے اور اس پر عمل درآمد کا کام بلڈنگ کنٹرول اداروں کے ذمے ہو تاکہ وہ یہ یقینی بنائیں کہ شہر معقول انداز میں ترقی اور فعال ہو۔ اگرچہ 1973-1985 اور 1986-2000 نکتہ نظر، مندرجات اور نتائج کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف تھے مگر یہ دونوں ترقیاتی کاموں کی رہنمائی کے لیے ایک کارآمد طریقہ کار پیش کرتے ہیں۔
حالانکہ اچھے خاصے فنڈز اور پیشہ ورانہ مشاورت کے ساتھ ان پلانز کو تیار کیا گیا لیکن ان کے بارے میں کبھی باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ اس بات میں تو کئی شک نہیں کہ ان پلانز کو دھیان میں لانے سے میگا ریئل اسٹیٹ منصوبوں کے لیے من موجی انداز میں زمین کی تقسیم اور مہنگے من چاہے ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی۔ جب ایک ایسی انتظامیہ ہو جو اس قسم کی قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر نظر رکھ نہ پاتی ہو تو پھر شہر بے ہنگم انداز میں بڑھتا ہی جاتا ہے۔
سپریم کورٹ متعلقہ حکام کو پلاننگ عمل دوبارہ سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کی ہدایت کرنے اور اسے قانونی تحفظ کی فراہمی میں مدد فراہم کرسکتی ہے۔ پلان میں پالیسی اور منصوبوں پر عمل درآمد کے حوالے سے وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتوں کے کردار کو لازمی طور پر واضح کیا جائے، جبکہ عمل درآمد کے مرحلے کو مؤثر بنانے کی خاطر حکومت کے صفِ بالا میں شامل حکام اپنے موجودہ اختیارات رضاکارانہ طور پر پلاننگ ایجنسی کے سپرد کرے۔
یہ مضمون 16 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔