فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد مردم شماری کے اعداد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، یوں ان کی دلیل اور بھی پختہ ہوجاتی ہے۔ تاہم نشستوں کی تعداد میں اضافہ ناقص مردم شماری کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ قبائلی علاقہ جات کی جانب سے دی جانے والی قربانیوں کے صلے کے طور پر کیا گیا ہے۔
اگرچہ نشستوں کی تعداد میں اضافہ تو ہوتا ہے مگر اراکین اسمبلی کی جانب سے ناقص مردم شماری کے حوالے سے درخواست قبول نہیں کی جاتی۔
قبائل کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ ان کی قربانیوں کو تسلیم کیا جاتا ہے اور انہیں اس کا صلہ بھی ملے گا۔ وہ گلے سے لگانے کے مستحق ہیں، تا کہ ان کے زخم بھر سکیں۔ بدقسمتی سے یہ باتیں زیادہ حقیقت کا روپ نہیں لیتی ہیں. تمام تر زمینی سرگرمیاں صوبائی حکومت سے منسلک ہیں۔ یوں اراکین صوبائی اسمبلی کی اشد ضرورت ہے۔
سابقہ فاٹا کے اراکین اسمبلی کے بارے میں لوگ چاہے جو کچھ بھی کہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انہی کی، بالخصوص رکن اسمبلی داوڑ کی کوششوں سے نشستوں میں اضافہ ممکن ہوا۔ اب جبکہ بل منظور ہوچکا ہے، توجہ کا مرکز حلقہ بندیاں ہونی چاہئیں۔ اگر نشستوں کو موجودہ مردم شماری کے تحت تقسیم کیا گیا تو پھر وہ افراد جو مردم شماری کے باضابطہ اعداد میں شامل نہیں ہیں وہ گنتی میں ہی نہیں آئیں گے اور یوں نشستوں میں اضافے کا حقیقی مقصد حاصل ہی نہیں ہوپائے گا۔
آبادی (جو شمار نہیں ہوئے انہیں شامل کرتے ہوئے) کی حقیقی تعداد کتنی ہے، اس کا تعین کرنا ایک حقیقی امتحان ہے۔ تاہم تمام مشکلات کے باوجود قبائلی اضلاع کو (اگرچہ کافی سست رفتاری کے ساتھ) بہتری کی جانب گامزن کیا جا رہا ہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں سابقہ فاٹا کی نمائندگی کرنے والے چند سرگرم اراکین صوبائی اسمبلی اسے صحیح سمت دینے کے ساتھ دوستانہ انداز میں انضمام کے اہداف کو حاصل کرنے میں مثبت کردار ادا کریں گے۔
یہ مضمون 19 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔