اب یہاں سے پاک بھارت تعلقات کی راہ کس طرف نکلتی ہے؟ پاکستان کی جانب فاتح مودی کے حوالے سے وسیع بنیادوں پر دو خیالات ملتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک وہ پاکستان کو بھارت ماتا کی کوکھ میں سے ناجائز طور پر کاٹے گئے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں جو کہ اب ہندوستان کے جنوبی ایشیا پر غالب طاقت بننے کے خواب کی تعبیر میں دشوار رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ پاکستان کو اسٹریٹجک میدان میں سبق سکھانے کی کوشش کریں گے۔ وہ دوطرفہ اور عالمی سطح پر دستیاب تمام آپشنز کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان پر شدید اور بے رحمانہ دباؤ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے تاکہ اسے بھارت کی مرضی کے تابع بنایا جاسکے۔
یا پھر متبادل طور پر، حد سے زیادہ پراعتماد مودی، دشوار حالات سے دوچار پاکستان کے لیے چند ایسے تدبیری آپشنز کا انتخاب کرسکتے ہیں جو پاکستان کو ’درست سمت‘ پر گامزن ہونے کی ’ترغیب’ دے سکتے ہیں۔ ان میں غیررسمی، بعدازاں منظم مذاکرات کی بحالی اور رفتہ رفتہ دو طرفہ تعلقات میں ایک حد تک تحرک کی حمایت کے آپشنز شامل ہوسکتے ہیں۔ جس کے بدلے میں مودی پاکستان سے کشمیر (بشمول بیک چینل مذاکرات کی ممکنہ بحالی اور ایل او سی پر شدت پسندانہ سرگرمیوں کا مستقل طور پر خاتمے)، دہشتگردی (بشمول ایف اے ٹی ایف کی شرائط کی تکمیل اور مبینہ دہشتگرد ڈھانچوں، پناہ گاہوں اور سروسز کے خاتمے) اور افغانستان سمیت خطے میں ہندوستانی اسٹریٹجک مفادات کے ’احترام‘ کے حوالے سے ’رویے‘ میں تبدیلی کی توقع کریں گے۔ مودی پاکستان سے یہ توقع وابستہ کریں گے کہ وہ چین اور بھارت کے درمیان اپنے تعلقات میں ’توازن‘ کو برقرار رکھے، جو کہ سی پیک میں اس کی شمولیت کا ’سیاق و سباق‘ واضح کرتا ہو۔
اس بات سے تو سبھی متفق ہیں کہ وزیر اعظم نے بھارت کے ساتھ تعلقات، بالخصوص حالیہ تنازع کے موقعے پر، اپنے اوسان قائم رکھتے ہوئے خوداعتمادی سے سنبھالے ہیں۔ جون میں ہونے والی شنگھائی کوآپریشن سمٹ (ایس سی او) کے دوران ان کی مودی سے ملاقات متوقع ہے۔ اختلافات اور چیلجنز کی پھیلی فضا میں یہ ملاقات کافی اہم ثابت ہوگی جو مواقع سے بھرپور اصولی اور حقیقی تعلقات کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔ اس قسم کی ملاقات، اگرچہ غیررسمی اور مختصر ہوتی ہے تو بھی اس کے لیے ملک کے اندر سیاسی مشاورت اور نئی دہلی کے ساتھ مفصل مشاورت کے ساتھ محتاط انداز میں تیاریاں کرنے کی ضرورت پڑے گی۔
اگر مودی کی سفارتکاری سخت اور غیر مصالحانہ ہی رہتی ہے تو پاکستان بھارت کے بالکل برعکس اصولی سفارتکاری کی اعلیٰ مثال قائم کرے. اگر مودی زیادہ لچک کا مظاہرہ کرتے ہیں تو پاکستان کو طویل مدتی اصولی تعلقات کے مواقع کی تلاش کرنے میں ذرا بھی شرمانا نہیں چاہیے۔
یہ مضمون 26 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔