اگر ہم اس ہیبت ناک واقعے سے آشنا ہیں تو اس کی وجہ گاؤں والوں کا وہ زبردست احتجاج ہے جو انہوں نے مقامی پولیس کے خلاف کیا تھا، انہوں نے پولیس پر مجرموں کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ جس کے بعد میڈیا کو معاملے کی جانچ کا تحرک ملا اور یوں اس بداخلاقی کے جال کا پردہ فاش ہوا مگر اس پر خاطر خواہ ردِعمل نہیں آیا۔
جس کیس کو ہم سب کو اندر سے جھنجھوڑ دینا چاہیے تھا، اسے بھولے بسرے ایک مدت ہوچکی ہے اور زیادہ تر متاثرین کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا جبکہ مجرموں کی اکثریت اور جن افراد نے انہیں تحفظ فراہم کیا، آزاد ہی رہے۔ البتہ مجھے اب بھی ویڈیوز میں ان لڑکوں کے چہرے یاد ہیں۔ مجھے ان کی سسکیاں اور چیخیں بھی یاد ہیں۔
لاہور کے شادباغ علاقے میں ایک 3 سالہ بچی کو اس کے گھر کے باہر سے اغوا کیا گیا مگر یہاں ہم خوش قسمت رہے اور اس کا نام ان چاک فرشتوں کی فہرست میں شامل نہ ہوا۔ والدین کو جیسے ہی بچی کی گمشدگی کا (اغوا ہونے کے قریب ایک گھنٹے بعد) احساس ہوا تو انہوں نے فوراً پولیس اسٹیشن کا رخ کیا، جہاں انہیں کہا گیا کہ وہ آس پاس کے علاقوں میں بچی کو تلاش کریں۔
والد کو جب سی سی ٹی وی فوٹیج ملی جس میں بچی کو اغوا ہوتے دیکھا جاسکتا تھا، تب تک متعدد گھنٹے بیت چکے تھے، اتنے گھنٹے جن میں ایک چھوٹے گلے کو آسانی سے کاٹا جاسکتا تھا۔ اتنے گھنٹے جن میں چھوٹی لاش کو باآسانی کوڑے کے ڈھیر پر پھینکا جاسکتا ہے۔
پورے ایک دن بعد ایف آئی آر داخل کی گئی جبکہ معاملہ میڈیا تک پہنچنے کے بعد ’نوٹس‘ لیا گیا اور پولیس ایکشن میں آئی۔
معاملے کو عوامی حلقوں تک پہنچتا دیکھ کر اغوا کار نے بچی کو نقصان پہنچائے بغیر مسجد کے باہر چھوڑ دیا۔ سُکھ کا سانس لیجیے جناب، آپ کو بھلائے جانے کے لیے ایک اور نام نہیں ملا۔ مضمون کو لکھتے وقت میں ایک اور نکتہ بھی شامل کرنا چاہتا تھا کہ کوئی گہرا معقول بیان یا حل بھی مضمون میں شامل کروں۔ مگر وہ کیا تھا، مجھے یاد نہیں رہا۔
یہ مضمون 27 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔