حالیہ اندازوں کے مطابق پوری دنیا میں 800 فوجی مراکز قائم ہیں۔ امریکا دعوی کرتا ہے کہ اس قدر وسیع پیمانے پر فوجی تعیناتی عالمی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے کی گئی ہے، مگر اس قسم کی فوجی موجودگی ہی اکثر تباہ کن مداخلت کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ان کے اس پھیلاؤ سے نئے تنازعات کو ہوا ملتی ہے، جن کے خونی نتائج امریکا سے ہزاروں میل دور نشانہ بننے والے ممالک کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ مگر حد تو یہ ہے کہ امریکا نے اپنے چھوٹے پڑوسی ممالک کو بھی غیرقانونی ہجرت کی سزا کے طور پر انہتائی ضروری امداد سے محروم کر رکھا ہے۔ جبکہ امن کو لاحق ایران کے تصوراتی خطرے کو تناؤ کی شدت بڑھانے کے ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
ان خطرناک جمہوریتوں میں 2 کافی اہم باتیں یکساں ہیں، یہ عالمی رائے پر فوراً بے رحمانہ انداز میں بڑی ہی رکھائی کے ساتھ اپنا رد عمل دیتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر بدترین بھارتی قبضہ ہو، اسرائیل کا فلسطین کا گلہ گھونٹنا ہو یا پھر امریکا کا دیگر ممالک کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدوں کا احترام نہ کرنا ہو، یہ تینوں ممالک اقوام متحدہ کی قراردادوں اور روایات کی کھلے عام دھجیاں اڑاتے ہیں۔
ایک اور حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ان تنوں ممالک کے سربراہان کو غیرقانونی کاموں میں شریکِ جرم رہنے کے سنگین الزامات کا سامنا ہے۔
بطور وزیراعلیٰ گجرات نریندر مودی نے مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے کوئی ایکشن نہیں لیا تھا۔ نیتن یاہو کے خلاف کرپشن الزامات پرعدالتی کارروائی شروع ہونے کو ہے۔ ٹرمپ کو مواخذے کی تحریک کے امکان کا ڈر ستا رہا ہے۔
اگرچہ جمہوریت کو مثالی نظام قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ اپنے اندر بھیانک صورتحال جنم دینے کی پریشان کن صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اب جبکہ یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے ایسے میں جمہوری نظاموں کو چیک اینڈ بیلنس کے اعتبار سے ایسے معنی خیز تخلیقی طریقے درکار ہیں جو تباہ کن رُجحانات کو انتخابی جائز حیثیت حاصل کرنے سے روک سکتا ہو۔
یہ مضمون 19 جون 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
ترجمہ: ایاز احمد لغاری