ایران کے بعد اگلا نمبر کس کا ہوگا؟


گزشتہ چند ہفتوں سے فارس/عرب خلیج میں طبلِ جنگ گونج رہا ہے۔ تیل کے ٹینکروں کو پُراسرار انداز میں نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایرانی پاسدارانِ انقلاب امریکی نگران ڈرون ہوا میں تباہ کرچکے ہیں۔ سعودی تنصیبات اور بصرہ کے مختلف مقامات پر میزائل حملے ہوئے ہیں۔ امریکا اپنا ایک بحری بیڑا اور ڈھائی ہزار اضافی فوجیوں کو خلیج روانہ کرچکا ہے، اقتصادی دباؤ کو مزید بڑھا دیا گیا ہے اور ایران کے خلاف فوجی آپریشن کا قانونی جواز پیدا کیا جاچکا ہے۔
بظاہر طور پر ایران اور امریکا کے درمیان ناخوشگوار اور بے رحمانہ ممکنہ جنگ کی طرف بڑھتی صورتحال سے خطے اور دنیا پر مرتب ہونے والے ممکنہ تباہ کن نتائج اب دنیا کو زیادہ دُور دکھائی نہیں دیتے۔
ابتدائی طور پر تو تنازع ’محدود‘ ہوسکتا ہے مگر اس میں تیزی سے شدت بھی آسکتی ہے، یعنی، ہرمز میں تیل ٹینکروں پر مزید حملے ہوسکتے ہیں، پاسدارانِ انقلاب کے بیڑوں اور دیگر بحری بیڑوں کے خلاف ’جوابی حملہ‘ ہوسکتا ہے، ایرانی اور شیعہ ملیشیا کی جانب سے عراق، شام، افغانستان اور دیگر جگہوں پر موجود امریکی تنصیبات پر حملوں کے ساتھ امریکی اور جی سی اہداف پر ایران میزائل حملے کرسکتا ہے، اور حزب اللہ اور دیگر ایران کے اتحادی گروہوں کی جانب سے اسرائیل اور اس کے زیرِ قبضہ زمینوں پر حملے کیے جاسکتے ہیں۔ ان متوقع حملوں سے بچنے کے لیے امریکا اور ممکنہ طور پر اسرائیل ایران کی میزائل اور بحری صلاحیتوں کو ختم کرنے کے لیے پیش بند فضائی حملے بھی کرسکتا ہے۔
- پہلا، ایران کے اندر افراتفری اور اس کے صوبوں میں لسانی بغاوتیں کی پھوٹ،
- دوسرا، امریکا اور اتحادی فورسز کے خلاف لڑی جانے والی جنگ سے ایرانی فوج اور شیعہ ملیشیا کو نقصان ہوگا اور ان کی عددی قوت بھی کم ہوسکتی ہے۔
- تیسرا، تہران کی ایما پر عراق، شام، یمن اور افغانستان کے تنازعات کی شدت میں اضافہ۔
- چوتھا، ایٹمی ہتھیاروں کی روک تھام کے معاہدے سے ایران کا انکار اور ایٹمی ہتھیار بنانے کی تیاری۔
- پانچواں، خلیج سے تیل کی برآمدات میں بڑی اور طویل رکاوٹ، جس کے باعث قیمتوں میں زبردست اضافہ، اور
- چھٹا، عالمی اقتصادی کسادبازاری۔
یوں وہ تمام قوتیں جو اس تنازع کا حصہ بنیں گی بلکہ وہ قوتیں بھی جو حصہ نہیں بنیں گے، ان سب کے لیے اس تنازع میں ہر طرح سے ہار کے سوا اور کچھ نہیں رکھا ہے۔ جن بے رحمانہ کارروائیوں کی وجہ سے خطہ جنگ کی نہج تک آ پہنچا ہے، انہیں انجام دینے والے خطاکاروں سے قطع نظر عام فہم اور خود سلامتی کا فہم یہی بتاتا ہے کہ اعلیٰ فریقین کھڑی چٹان دیکھ کر لوٹ جایا کرتے ہیں۔
تنازع کی شدت میں کمی لانے کے لیے کسی قسم کے اقدام سے قبل تنازع کی وجہ بننے والے مسائل کو حل اور تمام فریقین کے خدشات کو دُور کرنا ہوگا۔
ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلاؤ، علاقائی تنازعات، اقتصادی پابندیاں، ٹینکر اور میزائل حملے جیسے موجودہ کشیدگی کے تمام عناصر کو اب تک جتنا نمٹایا گیا ہے بھی تو بہت ہی بکھرے انداز میں۔ یہ تمام عناصر ایک دوسرے سے جڑے ہیں اور انہیں جامع اور ایک ہی وقت میں حل کرنے کی ضرورت ہے۔
مئی اور جون میں ہونے والے ٹینکر حملوں کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے مطالبے کو مان کر جنگ سے دُوری کی جانب پہلا قدم اٹھایا جاسکتا ہے۔ اور تمام فریقین کو اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ تحقیقات کے دوران کوئی بھی طاقت کا استعمال نہیں کرے گا۔
ساتھ ہی ساتھ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کو یہ مطالبات کرنے چاہئیں:
- پہلا، سعودی اور امارتی اہداف پر حوثی میزائل حملے روکے جائیں۔
- دوسرا، یمن میں عام جنگ بندی کا نفاذ کیا جائے،
- تیسرا، یمنی عوام کی جانب انسانی فلاح کی خاطر فراہم کی جانے والی امداد تک رسائی دینے کے تمام دروازے کھول دیے جائیں۔
- چوتھا، تنازع کا سیاسی حل نکالنے کے لیے سمٹ کی سطح کے مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔
سب سے ضروری یہ ہے کہ یورپی یونین، ایرانی جوہری معاہدے میں شامل تین یورپی فریقین کے ساتھ ساتھ روس اور چین، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور جنرل اسمبلی کی مدد کے ساتھ ایک اعلیٰ سطح کا سفارتی اقدام اٹھائیں۔ تاکہ: