مریم نواز کے ان مختصر جملوں کی مہربانی سے شہباز شریف کی پارلیمنٹ میں کی گئی 3 گھنٹوں کی تقریر کا مقدر کوڑا دان ٹھہرایا گیا۔ بے چارے شہباز شریف، اب ان کے کیریئر کا سفر پرنس چارلس کے شاہی سفر سے ملتا جلتا نظر آنے لگا ہے۔
ہم میں سے وہ خواتین و حضرات جو پاکستان میں سیاست نامی پاگل پن کی تشریحات بیان کرکے معاوضہ حاصل کرتے ہیں وہ آنے والے دنوں کے دوران مریم کے اپنے چچا کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لینے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
پریس کانفرنس کی ابتدا میں مریم نواز ایک بیٹی کی صورت میں نظر آئیں۔ انہوں نے اپنے والد کی صحت کے حوالے سے بات کی اور یہ واضح کرنے کی کوشش کہ ان کے والد کے ساتھ جیل میں ناگوار سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ دراصل اس طرح وہ نواز شریف کی ضمانت پر رہائی کے لیے دباؤ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھائی دیں، کیونکہ حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ ان کی ضمانت کی درخواست رد کرچکی ہے اور ممکن ہے کہ ان کے وکلا اب سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔
ایک بیٹی کے طور پر انہوں نے اپنا مؤقف نصف گھنٹے کے اندر پیش کردیا۔
تاہم وہاں موجود صحافی ظاہر ہے کہ ان سے سوالات پوچھنا چاہتے ہیں اور انہیں طبی معاملات سے زیادہ سیاسی معاملات میں دلچسپی تھی، اور پھر پریس کانفرنس میں بیٹی کے بعد باری آئی ایک ابھرتی ہوئی سیاستدان کی۔
کانفرنس کے اس حصے میں انہوں نے میثاقِ معیشت، بلاول بھٹو زرداری، فوج اور دیگر معاملات پر بات کی۔
مریم نواز کے ان مختصر جملوں کی مہربانی سے شہباز شریف کی پارلیمنٹ میں کی گئی 3 گھنٹوں کی تقریر کا مقدر کوڑا دان ٹھہرایا گیا۔ بے چارے شہباز شریف، اب ان کے کیریئر کا سفر پرنس چارلس کے شاہی سفر سے ملتا جلتا نظر آنے لگا ہے۔
ممکن ہے کہ مریم نواز کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ ان کے الفاظ سے چائے کی پیالی میں طوفان برپا ہوجائے گا۔ اس بات کی تصدیق پریس کانفرنس سے کچھ لمحوں بعد دیے گئے انٹرویو میں ثابت بھی ہوگئی۔ خصوصی انٹرویوز جن کا دورانیہ ایک پورے پروگرام جتنا ہوتا ہے وہ عام طور پر فون پر نہیں لیے جاتے۔ ایسا لگا کہ جیسے جلد بازی میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ پریس کانفرس سے اٹھنے والے سوالات اور خاص طور پر ان کے اپنے چچا، جو پارٹی صدر بھی ہیں، کے ساتھ تعلقات پر وضاحت دی جائے۔
مگر، یہ فقط گھریلو تعلقات ہی نہیں تھے کہ جن کے بارے میں کیے گئے مشکل سوالات سے بچنے کی عدم صلاحیت ظاہر ہوئی بلکہ وہ فوج کے بارے میں بھی کیے گئے سوالات کو صحیح سمت میں لے جانے میں ناکام نظر آئیں۔
پریس کانفرنس کے دوران جب انہوں نے قرضوں سے متعلق تحقیقات کے لیے سیاسی تناظر میں بنائے گئے کمیشن میں فوج کے ادارے کی شمولیت پر تشویش کا اظہار کرنے کی کوشش کی تو وہ آئی ایس آئی کے افسر کی جانب سے کی گئی سخت پوچھ گچھ پر اپنی ناراضگی کو چھپا نہیں پائیں، کیونکہ باقی دیگر تمام ممبران نے اس مرحلے پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔
اسی طرح انہوں نے قرضہ کمیشن کا دائرہ مشرف دور اور کولیشن سپورٹ فنڈز تک بڑھانے کا مطالبہ کرکے پنڈی اور اس سے پرے متعدد افراد کو حیران کردیا۔
یہ یقین کرنا تھوڑا مشکل ہے کہ ایسا انہوں نے جانتے بوجھتے کیا کیونکہ گزشتہ چند ماہ میں مریم نواز شریف ایک الگ شخصیت کے طور پر سامنے آئی ہیں، ایسی شخصیت جس نے ناصرف ان اداروں کے بارے میں خاموشی توڑی ہے بلکہ ان اداروں کو انتخابات سے پہلے ہی زبانی حملوں کا نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔
وہ ایک بار پھر (پریس کے ساتھ باضابطہ گفتگو میں) ناتجربہ کاری اور اس کے ساتھ تحمل کھو بیٹھنے کا مظاہرہ سا کرتی نظر آئیں، جس کی انہیں قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی کیونکہ خواتین کو جذبات کے کسی اظہار پر مردوں کے مقابلے میں زیادہ سخت فیصلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک بات جو مریم نواز کے اپنے چچا اور سول فوجی تعلقات کی وجہ سے زیادہ سامنے نہیں آسکی تھی وہ ان کے والد کے کئی قریبی ساتھیوں کے ساتھ زیادہ قریبی نظر نہ آنے والے تعلقات کے اشارے تھے۔ (ن) لیگ کے یہ رہنما ظہرانے اور پریس کانفرنس کے موقعے پر بھی دکھائی نہیں دیے۔
جیسے شاہد خاقان عباسی مذاق اڑاتے ہوئے کہتے رہتے ہیں کہ عمران خان اگر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کتنا پیسہ خزانے میں آ چکا ہے اور کہاں خرچ کیا گیا ہے تو اس کا پتہ وہ وزارت خزانہ کی دستاویزات کا جائزہ لے کر لگا سکتے ہیں۔ لیکن مریم نواز نے اس تجویز کو سنجیدہ لے لیا ہے۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بطور ایک حزبِ اختلاف رہنما اپنا کردار زیادہ عوامی سطح پر ادا کرنے کی کوششوں کی وجہ سے مریم نواز کو بار بار ایسے نازک موڑ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔