ہڑپہ (جو موجودہ شہر ساہیوال کے قریب واقع ہے) سے بھی تجارتی جال کی وسعت کے ثبوت ملتے ہیں۔ اس قدیم مقام سے ایسے سیپیوں کے بنے موتی دریافت ہوئے ہیں جو اس وقت مقامی طور پر دستیاب نہیں تھے۔
تاہم موجودہ افغانستان کی شمالی سرحد کے قریب آلوس ندی کے پاس موجود شورتوگئی کے مقام کو سب سے شاندار دریافت کہا جاسکتا ہے! اس مقام سے سنگ لاجورد کی کان کنی کی جاتی تھی اور وادئ سندھ برآمد کردیا جاتا تھا، یہی نہیں بلکہ بحری بیڑوں کی مدد سے سمیریہ جیسے دُور دراز علاقے تک بھی پہنچایا جاتا تھا۔ پھلتے پھولتے کاروبار کے لیے ناپ تول کا یکساں نظام مطلوب ہوتا ہے اور بلاشبہ اس دور میں بھی ناپ تول کا معیاری نظام وجود رکھتا تھا اور پیمانہ پٹی ہوا کرتی تھی جس پر جدید دور کے انچ جیسے پیمائشی یونٹس درج ہوا کرتے تھے۔
ہم اس تہذیب کی اُس شہری منصوبہ بندی بشمول وسیع سڑکوں، منظم رہائشی اور نکاسِ آب کے نظام کی روشن مثال سے آشنا ہیں جسے 18ویں صدی میں یورپ میں ہو بہو نقل کیا تھا۔ اگر ہڑپہ کے رہائشی پاکستان کے کئی علاقوں میں نکاسِ آب کے ابتر نظام کو دیکھتے تو ان کے سر پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا اور بہت ہی مایوس ہوتے۔
مگر ایک قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ دیگر قدیم تہذیبوں کے برعکس اس تہذیب میں ہمیں منظم فوج کی موجودگی کا خاطر خواہ ثبوت حاصل نہیں ہوا ہے اور نہ ہی عالیشان محلات اور عسکری نقوش سے سجی دیواروں کے آثار ابھی تک دریافت ہوئے ہیں جو آشوری اور بابلی تہذیب کا خاصہ ہیں۔
آج تک جس بات کا افسوس رہا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی زبان ناقابلِ فہم ہی رہی، اور اس بات کا زیادہ امکان نہیں کہ ہمیں کہیں سے ایک روزیٹا پتھر حاصل ہوجائے گا جو ساری گتھی کھول دے گا۔
ایک اور پہیلی بھی ہے اور وہ یہ کہ ہم نہیں جانتے کہ اس تہذیب کا خاتمہ کیسے ہوا۔ حملے کے ثبوت تو ملتے ہیں لیکن یہ امکان بہت کم ہے کہ تہذیب کے خاتمے کی یہی سب سے اہم وجہ تھی۔
بلاشبہ ماضی کی جانب سے ملنے والی ایک سخت وارننگ میں ہمیں ایسا پیغام موصول ہوتا ہوا نظر آتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ہی وہ سب سے بڑی مجرم رہی ہے جو خشک سالی اور لوگوں کی ہجرت کا باعث بنی اور یوں نظام ٹوٹا پھر خود تہذیب ہی ڈھے گئی۔
بے شک اس میں فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
یہ مضمون 8 جولائی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔