اگر آپ کو تصور کرنے میں بھی دشواری کا سامنا ہے تو مارچ کے شرکا سے فقط یہ پوچھ لیجیے کہ وہ کس کرب سے گزرے ہیں۔ کیونکہ سمندر سفاکی اور بے رحمی سے اپنا کام کرتا ہے، ہم اس کی کھائی ہوئی زمین کا تو اندازہ لگاسکتے ہیں لیکن زیریں سطحی حصے (sub-surface) میں رستے اس کے پانی کا تخمینہ لگانا کافی مشکل کام ہے، کیونکہ اس طرح نمکین پانی زیرِ زمین آبی ذخائر میں شامل ہوتا جاتا ہے، جس کے باعث زراعت ناممکن ہوجاتی ہے اور ذرخیز زمینیں بنجر بن جاتی ہیں، یہاں تک کہ پینے کے پانی کی عدم دستیابی کے باعث لوگ اپنے پورے کے پورے دیہات چھوڑ کر نقل مکانی کرچکے ہیں۔
کیٹی بندر اور شاہ بندر کی ہی مثال لیجیے جو کسی وقت خوشحال لوگوں کے علاقے ہوا کرتے تھے، جن کا گزر سفر یہاں کی بندرگاہ اور تجارتی سرگرمیوں پر تھا۔ مگر اب تو یہ بقول معروف آرکیٹیکٹ اور کارکن عارف حسن کے یہ ’گھوسٹ ٹاؤنز‘ بن چکے ہیں۔
کسے الزام دیں؟ بلاشبہ دریائے سندھ کے پانی کی مختلف نہروں میں تقسیم نے زمین کے بڑے بڑے حصوں کی آبپاشی میں مدد کی لیکن آگے چل کر ڈیلٹا کو اس کی کیا قیمت چکانی تھی اس حوالے سے زیادہ سوچ و بچار ہی نہیں کیا گیا۔
بلاشبہ، موجودہ حالات ڈیموں کا تقاضا کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت پسندی نظر کیوں نہیں آتی کہ ہمارے پانی کے سنگین مسائل میں ایک بنیادی کردار انتظامیہ اور سپلائی کا بھی ہے؟
1991ء کے پانی کے معاہدے کے مطابق نازک حالات سے دوچار ڈیلٹا کو زندہ رکھنے کے لیے کوٹری بیراج سے نیچے کم از کم 10 ایم اے ایف پانی چھوڑنا لازمی ہے، لیکن حقیقت میں ایسا بہت ہی کم ہوا۔
اب حالات بدتر سے بدترین ہونے کو ہیں۔ چونکہ ماحولیاتی بحران کے اثرات واضح نظر آنے لگے ہیں اور برف کی تہیں پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے پگھلتی جا رہی ہیں، ایسے میں پوری دنیا میں سطح سمندر میں اضافہ ہوگا اور یوں یہ بحران عالمی سطح تک پھیلتا نظر آئے گا۔
یہاں پاکستان میں انسانی و اقتصادی مشکلات کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی داخلی نقل مکانی کے سلسلے بھی شروع ہوجائیں گے اور یوں ہماری مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ دوسری طرف ٹھٹہ میں مارچ کے شرکا ہمیں آنے والے کل کی خطرناک صورتحال سے خبردار کر رہے جبکہ ہم میں سے کوئی بھی ان کی طرف کان دھرنے کو تیار نہیں۔
یہ مضمون 22 جولائی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔