جو لوگ جانسن کو برطانیہ بلکہ انگلش استحقاق و اشراف پسندی کا ایک سب سے بدترین چہرہ قرار دیتے ہیں ان سے اختلاف کی کچھ خاص وجوہات نہیں ملتیں۔ بلاشبہ یہ وہ واحد ایٹو اور اوکسبرج سے فارغ التحصیل شخصیت نہیں ہیں جو حکمرانی اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہے۔ رواں ہفتے تو ان کی اونچی اڑان کی خواہش اپنی انتہا تک پہنچ گئی۔ تاہم کئی بریگزٹ کی سوچ رکھنے والے برطانوی باشندے خود کو ان قوتوں کے خلاف بغاوت کا حصہ تصور کرتے ہیں جن قوتوں کی نمائندگی جانسن کرتے ہیں۔
تھیریسا مے کی جانب سے ڈاؤننگ اسٹریٹ میں الوداعی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں انہوں نے اپنی پارٹی اور ناردرن آئرلینڈ کے رجعت پسند ڈیموکریٹک یونینسٹس کو مدعو کیا۔ اس موقعے پر اپنی الوداعی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ان کی ترجیح یہ تھی کہ جیریمی کاربائن کو 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کا رہائشی بننے سے روکا جائے۔
جبکہ دوسری طرف کاربائن کے لیے وزیرِاعظم بننے کے امکانات مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے جانسن کو بہترین امیدوار کے طور پر پیش کیا گیا ہے، وہ بھی ان افراد کی جانب سے جو خود یہ کہتے ہیں کہ ان کی زیرِ قیادت لیبر پارٹی کے پاس کسی قسم کے روشن امکانات ہی نہیں ہیں۔
لیبر پارٹی کے کئی ارکانِ پارلیمنٹ بھی حکومت کے اس تصور کے اتنے ہی مخالف دکھائی دیتے ہیں کہ جس کا مقصد اس نقصان کا کسی حد تک ازالہ کرنا ہے جو مارگریٹ تھیچر اور ان کے پسندیدہ جانشین ٹونی بلیئر کی نیو-لبرل سرپرستی نے برطانیہ کو پہنچایا۔
کوربائن کی لیبر پارٹی کے خلاف متفقہ مہم کا تعلق بریگزٹ پر ان کے ابہام یا پھر نیتن یاہو کی حکومت کی جانب ان کی دائمی نفرت سے نہیں تھا بلکہ اس کا تعلق اس مقامی ایجنڈے سے ہے جس کی وزیرِاعظم کا انتخاب کرنے والوں میں عام حمایت حاصل ہے، البتہ ان مفادات کے لیے خدشات پیدا کرتا ہے جس کی نمائندگی جانسن کرتے ہیں۔
چلیں کم از کم جانسن بورس کا وزیرِاعظم بننا سوشلسٹ متبادل کے لیے ٹھوس دلیل کی صورت تو پیدا کر ہی سکتا ہے۔ میں دل تھام کر اس لمحے کا انتظار کرتا رہوں گا۔
یہ مضمون 24 جولائی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔