تاہم اس کے بالکل برعکس ہم عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم درحقیقت ادویات، انجینئرنگ اور اکاؤنٹنگ جیسے مختلف ہنر کی تربیت کا نام ہے۔ ہم اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ جتنا جلدی طلبا اس قسم کے ہنر حاصل کرلیں گے اتنا ہی زیادہ ان کے لیے پیسے کمانے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ ہائی اسکول میں ہی پروفیشنل تعلیم کا آغاز ہوجاتا ہے۔
ہنر کے حصول کی بے پناہ خواہش میں عام تعلیم (general education) دب جاتی ہے جو اسکولوں کا لازمی طور پر حصہ ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے کئی اعلیٰ درجے کے ٹیکنیشنز موجود ہیں جن کا ذہن عقلی اعتبار سے بند ہے۔
تعلیم کی دوسری قسم کا تعلق مختلف ہنر کے حصول سے ہے جسے لوگ روزگار کی خاطر حاصل کرتے ہیں۔ یہیں پر ہم ایک اہم غفلت کے مرتکب ہوجاتے ہیں، کیونکہ مختلف ہنر کے لیے مطالبہ اقتصادی اور سماجی حالات سے جڑا ہوا ہے۔
مثال کے طور پر اگر معیشت روزگار کے مواقع پیدا نہیں کر رہی ہے تو پروفیشنل افراد کی ایک بڑی تعداد کو تربیت فراہم کردینے سے ترقی کی راہوں پر گامزن نہیں ہوا جاسکتا۔ ملازمتوں کی تلاش میں پاکستانی پروفیشنلز کی ایک بڑی تعداد کو دیگر ملکوں کی طرف رخ کرتے ہوئے دیکھ کر ہمیں اس بات کا اندازہ اب تک ہوجانا چاہیے۔ یہ لوگ ترقی کی راہ پر گامزن معیشتوں کا رخ کر رہے ہیں جہاں مخصوص اقسام کے ہنر مطلوب ہیں۔
اس بات سے اس دعوے کو تقویت ملتی ہے کہ ترقی پہلے آتی ہے اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کون سے ہنر مطلوب ہوتے ہیں۔
اقتصادی زبان میں کہیں تو مختلف ہنر کی طلب ماخوذ طلب (derived demand) ہوتی ہے۔ معاشی حالات، اس کی ضروریات اور اس کی پیداواری نوعیت سے ماخوذ ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر، ایک کم آمدن والا ملک جہاں ماحولیاتی حفظان صحت کو بالکل بھی برقرار نہیں رکھا جاتا وہاں اسپیشلائزڈ ڈاکٹروں کو حد سے زیادہ فارغ التحصیل کرتے جانے کی کوئی تُک نہیں بنتی، کیونکہ ہوتا یہ ہے کہ ایسے زیادہ تر ڈاکٹرز باہر چلے جاتے ہیں اور جو بچتے ہیں ان سے علاج کروانے کی اکثر آبادی استطاعت نہیں رکھتی، یوں وہ ان عطائی ڈاکٹروں کے پاس جانے پر مجبور ہوجاتی ہے جو مؤثر طلب کو پورا کرنے میں کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔
ان دلائل سے یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ اگر پاکستان کا ہر ایک شہری پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حاصل کرلے تب بھی ملک کے ترقیاتی مسائل حل نہیں ہوجائیں گے بلکہ اس طرح تو موجودہ بحران مزید بدتر ہوجائے گا۔ آج کل نائب قاصد کی ملازمت کے لیے ہزاروں لوگ درخواستیں جمع کرواتے ہیں جن میں سے کئی افراد تو پوسٹ گریجویشن کی ڈگریوں اور پروفیشنل قابلیتوں کے حامل بھی ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ متعدد وکلا کو اوبر گاڑیاں چلاتے ہوئے بھی پایا جاسکتا ہے۔
ایک اور معاشرتی نقص بھی معیشت کو مطلوب ہنر کے حصول کی راہ میں رکاوٹ کا کام کرتا ہے۔ لوگ اکثر سوچتے ہیں کہ 20 کروڑ سے زائد آبادی والا ملک جہاں بے انتہا بے روزگاری پائی جاتی ہے وہاں کسی ماہر الیکٹریشن یا پلمبر کو ڈھونڈنا اتنا مشکل کیوں ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ روزگار اور ترقی مہارت کے بجائے دیگر عناصر پر مبنی ہے؟ اگر زیادہ تر ملازمتوں کی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کے درمیان بندربانٹ ہوتی ہے یا پھر بھاری رشوتوں کے عوض دی جاتی ہیں، تو اضافی مختلف اقسام کے ہنر کے حصول سے اچھا ہے کہ اپنے تعلقات بہتر بنانے پر محنت کی جائے یا پھر ملازمتوں کو خریدنے کے لیے پیسے جٹانے کی جدوجہد کی جائے۔