ایسا اکثر اس لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ سائنس کو پرکھنے کے لیے مذہبی نظریات پر مبنی علوم کا استعمال کرتے ہیں، یہ تو ٹھیک ایسا ہی ہے جیسے سائنسدان مذہب یا روحانیت کو اپنے تجرباتی طریقہ کار کے تحت پرکھنے لگ جائیں۔
بات اتنی سی ہے کہ مذہب اور سائنس کے درمیان مباحثہ ہمیں مشترکہ جواز تک پہنچنے ہی نہیں دیتا۔ کم از کم میرا تو یہ کہنا ہے کہ مذہب اور سائنس کے نظریہ علم کے طریقوں کو مختلف انداز میں برتا جائے کیونکہ ان دونوں کو اپنے سائنسی اور مذہبی علوم کو ثابت (methodology-طریقہ کار) اور پرکھنے (معیارِ حقیقت) کے لیے مختلف طریقے درکار ہیں۔
ہمیں اپنے تصورات و خیالات کو کم از کم اتنا ضرور بدلنا ہوگا کہ ہم ان تضادات پر جائزہ لینے کا حوصلہ پیدا کرسکیں تاکہ کسی بھی علم کو سمجھنے کے لیے ہم ایک ساتھ دونوں علوم کے دو مختلف پرکھنے کے معیارات کا استعمال کرنے کے بجائے ہر علم کو اسی کے زاویہ نظر سے دیکھیں۔
سائنس کی ہر شاخ میں ہونے والی تحقیق میں مختلف طریقہ کار اختیار کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح، مذہب کے اندر بھی قانون یا روحانیت، زبان یا ارکان جیسی مختلف شاخوں میں تحقیق کے لیے مختلف طریقہ کار مطلوب ہوتے ہیں۔
چنانچہ جب علماء سائنس کو علمِ مذہب یا نظریے کو استعمال کرتے ہوئے پرکھتے ہیں، تب وہ وہی غلطی کر رہے ہوتے ہیں جو مذہب کو سائنسی طریقہ کار کے تحت پرکھنے والے سائنسدان کر رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا، یہ ضروری ہے کہ دونوں علوم کے ساتھ مختلف انداز کا سلوک برتا جائے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان میں سے کسی ایک کو کم تر نہ سمجھیں بلکہ انسانی فلاح کے لیے ہر ایک علم میں موجود منفرد کردار کو تسلیم کریں۔
ملک کے اندر اور باہر لیکچروں کے دوران اکثر نوجوان مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ’آخر مذہب نے گزشتہ 500 برسوں کے دوران انسانی ترقی میں کون سا کردار ادا کیا ہے؟‘ دراصل وہ یہ سوال شاندار سائنسی ایجادات اور دریافتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔ میں جواباً ان سے سوال کرتا ہوں کہ، ’آپ مذہب سے کیا امیدیں وابستہ کرتے ہیں؟ کیا مذہب سے تکنیکی انقلاب لانے کی توقع کرتے ہیں؟‘
دراصل یہ فطری امر ہے کہ جو کام سائنس کرتی ہے وہ دیکھا جاسکتا ہے اور اس کا مشاہدہ بھی ممکن ہے، تاہم انسان کی گہرائیوں میں مذہب کے ذریعے جو تبدیلی پیدا ہوتی ہے اسے دیکھا نہیں جاسکتا۔
تاہم، اگرچہ عالیشان تہذیبی کامیابیوں کے پیچھے سائنسدانوں کا مرکزی کردار رہا ہے لیکن اس کے اندر شامل ’مذہبی‘ تحریک کو جھٹلانا ہرگز ممکن نہیں، جیسے تہذیبی فن اور شاندار تعمیرات، ادبی اور بیش قیمتی ادب و دیگر خصوصیات کے پیچھے روحانیت پر مبنی ترغیب۔