حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں حکومت پر حزب اختلاف کے سینیٹروں کو دباؤ میں لانے اور انہیں لالچ دینے کا الزام لگا سکتی ہیں، اور ممکن ہے کہ ان میں تھوڑی بہت صداقت بھی ہو۔ مگر حالیہ عدم اعتماد کی تحریک کے ووٹنگ عمل کے نتیجے سے جو حقیقی سبق حاصل ہوا ہے وہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنا داخلی نظام مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ جس نظام کے تحت عمومی طور پر سیاسی جماعتوں چلائی جا رہی ہیں اس میں جب تک حقیقی، ٹھوس اور مؤثر اصلاحات نہیں لائی جاتیں تب تک یہ سیاسی جماعتیں اپنے قانون سازوں سے مسلسل فرمانبرداری کی توقع نہیں کرسکتی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کو متعدد مراحل پر مبنی امیدوار کا سلیکشن عمل وجود میں لانا ہوگا، جو اعلانیہ و شفاف ہو اور جس میں پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی رائے کی اہمیت سے زیادہ قانون ساز کے حلقے کی رائے کو اہمیت حاصل ہو۔ ایسی کئی افراد جنہیں انوکھے طریقے سے پارٹی ٹکٹس دیے گئے تھے اطلاعات کے مطابق وہی ایسے پہلے لوگ تھے جو مخالف قوتوں کی کیمپ میں شامل ہوگئے تھے۔ قانون سازوں کو پارٹی کی قانوسازی کے ایجنڈا سے متعلق فیصلوں کا حصہ بنانے کے لیے متواتر مشاورتی نظام کا ہونا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے تنظیمی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے کافی کام کرنا ہوگا۔ اس وقت صرف ایک ہی سیاسی جماعت کے پاس دارالحکومت میں باضابطہ فعال دفتر ہے جبکہ سپریم کورٹ کی جانب سے قریب 4 برس قبل رہائشی علاقوں سے دفاتر ختم کرنے کا حکم نامہ آنے کے بعد سے اب تک دیگر سیاسی جماعتوں کے پاس یا تو سرے سے کوئی دفتر نہیں یا پھر عارضی انتظامات کر رکھے ہیں۔
آخری بات یہ کہ سیاسی جماعتیں یا تو اپنے قانون سازوں کو اس بات پر قائل کریں کہ انہیں کسے اور کیوں ووٹ دینا چاہیے یا پھر اُن معاملات پر ان کی آزادی کا احترام کریں جو کہ آئین کی انحرافی مخالف شق 63 اے کی حدود میں نہیں آتے۔
یہ مضمون 3 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔