ضروری بات یہ ہے کہ وانگ ژی نے اس امید کا اظہار کیا کہ بھارت بھی چین کی طرح علاقائی امن اور استحکام کے لیے تعمیری کردار ادا کرے گا۔ جے شنکر نے چین کو یہ یقین دہانی کروائی کہ بھارت زمین پر قبضے کے مقاصد نہیں رکھتا اور وہ ان دونوں کے درمیان 3 ہزار 488 طویل لائن آف ایکچوئل کنٹرول کا احترام کرتا ہے۔ (کیا بھارت اکسائی-چن کے چینی قبضے کو عملاً قبول کرچکا ہے۔) تاہم چینیوں نے بھارت کی جانب سے ’لداخ کو یونین ٹیریٹری میں شامل کرنے پر یہ کہتے ہوئے اعتراض کھڑا کیا ہے کہ اس عمل سے چین کی زمینی خودمختاری کو ٹھیس پہنچی ہے۔ یہ دونوں ملک اختلافات کو تنازعات میں بدلنے کا ارادہ نہیں رکھتے مگر اس کے باوجود چین-بھارت مباحثے کا بیج پھوٹ چکا ہے۔
یہ تمام تر پنگ پونگ سفارتکاری کشمیری مسلمانوں کو امن و سکون کی فراہمی کے لیے ناکافی ہے۔ وہ جب کھڑے ہوتے ہیں تو انہیں گولیوں سے اندھا بنا دیا جاتا ہے، ایک منصوبہ بندی کے تحت بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے اور گرا دیا جاتا ہے، اور اب تو صورتحال نسل کشی کی نہج تک جا پہنچی ہے۔
اگر یہی صورتحال رہی تو کشمیر دوسرا مسلم کوسوو بن جائے گا۔
یہ مضمون 15 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔