ان ساری باتوں کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے معاشرے میں ٹھیکیداری تعلقات ممکن ہی نہیں۔ ایسے کئی تعلقات ہیں جو مل کر بخوبی اپنا کام بھی انجام دے رہے ہیں۔ پھر ہم ایک ایسی متحرک دنیا میں بستے ہیں جہاں وقت کے ساتھ چیزیں بدل جاتی ہیں اور نئے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ کمزور ٹھیکیداری ماحول اور معاہدوں پر عمل درآمد کی کمزوریوں کے باعث کاروباری اداروں کے لیے لاگتیں بڑھ جاتی ہیں اور آپشنز محدود ہوجاتے ہیں۔ پیداواری راہیں بگاڑ کی طرف مائل ہوجاتی ہیں اور ادارے اکثر دوسرے یا تیسرے بہترین آپشن کی طرف جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس کے باعث کچھ جدتوں کا حصول بھی مشکل ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں ہمارے پاس ’کے مارٹ‘ یا ’وال مارٹ‘ کے ہم پلہ کوئی نہیں ہے۔ کیا معاہدوں پر عمل درآمد کی کمزوریوں کی یہ اکلوتی وجہ ہے؟ باٹا اور سروس کی پاکستان میں دہائیوں سے سیکڑوں دکانیں موجود ہیں۔ بینکوں کے بھی جال یہاں موجود ہیں۔
تو پھر ریٹیل کے شعبے میں اس کا رجحان کیوں کم ہے؟ حتیٰ کہ دوا سازی کا شعبے میں بھی ایسا ہو رہا ہے کہ جہاں ساکھ ’مہربان اجارہ داری‘ (Favour oligopoly) کے انتظامات پر اثرانداز ہوتی ہے۔ (فضل الدین اپنی ایک ساکھ رکھتا ہے اور لوگ تنہا دکان کو چھوڑ کر فضل الدین کی دکان پر ہی جاتے ہیں)۔ چین اسٹورز کی ابھی صرف ابتدا ہوئی ہے جبکہ فرنچائز ماڈل بھی ابھی اپنے قدموں پر پوری طرح کھڑا نہیں ہوسکا ہے۔
پاکستان میں میکرو سطح پر ہی اصلاحات کی باتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن حقیقی گفتگو کو مائیکرو سطح پر لانا لازمی ہے۔ مثلاًیہ وہ ایک شعبہ ہے جس میں غیر معمولی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اگر مقصد صنعتکاری کو بڑھانا، برآمدات میں اضافہ کرنا اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے تو حقیقی فائدے مائیکرو سطح پر مذکورہ اصلاحات سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
یہ مضمون 23 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔